فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ
پس اے میرے نبی ! آپ صبر کیجیے، بے شک اللہ کا وعدہ بر حق ہے، اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیے، اور شام کو اور صبح کے وقت اپنے رب کی تعریف اور پاکی بیان کرتے رہیے
انبیا کے گناہوں سے مراد معمولی قسم کی اجتہادی لغزشیں ہیں: انبیا سے کسی گناہ کا سرزد ہونا نا ممکنات میں سے ہے۔ ان کے گناہ سے مراد ان کی چھوٹی چھوٹی اجتہادی لغزشیں ہی ہو سکتی ہیں جو بھول چوک کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں اور بتقضائے بشریت سرزد ہو جاتی ہیں۔ یہاں ان لغزشوں کا تعلق یقینا صبر سے ہے۔ جیسے کہ آپ کو کبھی کبھی یہ خیال آ جاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کفار مکہ کے مطالبہ کے مطابق کوئی معجزہ عطا فرما دے تو اس سے اسلام کو کافی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یا جب کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھوتہ کی راہیں ہموار کرنا چاہتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آنے لگا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے خیال سے بھی سختی سے روک دیا تھا۔ اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے آپ کا ہی بول بالا ہو گا۔ بِالْعَشِیِّ سے مطلب دن کا آخری اور رات کا ابتدائی حصہ اور ’’ ابکار‘‘ سے رات کا آخری اور دن کا ابتدائی حصہ مراد۔ اس آیت میں اجمالاً پانچوں نمازوں کا ذکر آ گیا ہے۔ ایک پہلے حصہ دن کی اور چار پچھلے حصہ دن کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں ہر روز ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔(بخاری: ۶۳۰۷)