وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُم بِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ اللَّهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ
اور اس سے قبل یوسف (١٩) تمہارے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے، پس تم اس دعوت کی صداقت میں ہمیشہ شک ہی کرتے رہے جو وہ تمہارے پاس لے کر آئے تھے، یہاں تک کہ جب وہ وفات پا گئے تو تم کہنے لگے کہ اس کے بعد اب اللہ کوئی دوسرا رسول نہیں بھیجے گا، اللہ اسی طرح ہر اس شخص کو گمراہ کردیتا ہے جو حد سے تجاوز کرنے والا، شک و شبہ کرنے والا ہوتا ہے
یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے حضرت یوسف علیہ السلام پیغمبر بن کر آئے تھے عزیز مصر بھی آپ ہی تھے۔ اور اپنی امت کو ایمان کی طرف بلاتے تھے۔ لیکن تم ان پر بھی ایمان نہیں لائے اور ان کی دعوت میں شک و شبہ ہی کرتے رہے۔ آخر جب یوسف علیہ السلام کا انتقال ہو گیا تو تم بالکل مایوس ہو گئے اور اُمید کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اب تو اللہ تعالیٰ کسی کو نبی بنا کر بھیجے گا ہی نہیں ۔یہ تھا ان کا کفر اور ان کی تکذیب۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دیتا ہے جو بے جا کام کرنے والا، حد سے گزرنے والا اور شک و شبہ میں مبتلا رہنے والا ہو ۔