وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اور (اے نبی !) جب آپ صبح کے وقت (86) اپنے گھر سے چلے، مسلمانوں کو جنگی ٹھکانوں پر متعین کر رہے تھے، اور اللہ بڑا سننے والا، خوب جاننے والا ہے
یہاں سے ایک نیا مضمون شروع ہورہا ہے جو جنگ اُحد سے متعلق ہے ۔ رمضان ۲ ہجری میں غزوہ بدر میں قریش مکہ کو عبرت ناک شکست ہوئی تھی ۔ ابوجہل کی موت کے بعد ابوسفیان نے قریش کی قیادت سنبھال لی۔ جنگ بدر میں قریش کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید ہوئے ان کفار کے لیے یہ بڑی بدنامی کا باعث اور ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ چنانچہ انھوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک زبردست انتقامی جنگ کی تیار ی کی جس میں عورتیں بھی شریک ہوئیں۔ ادھر مسلمانوں کو جب اس بات کا علم ہوا کہ کافر تین ہزار کا لشکر لیکر اُحد پہاڑ کے قریب خیمہ زن ہوگئے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ وہ مدینہ میں رہ کر لڑیں یا مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ کریں۔ بعض صحابہ نے اندر رہ کر ہی مقابلہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے برعکس بعض پرجوش صحابہ نے، جنھیں جنگ بدر میں حصہ لینے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ مدینہ سے باہر جاکر لڑنے کی حمایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر حجرے میں تشریف لے گئے، اور جب ہتھیار پہن کر باہر آئے تو دوسری رائے والوں کو ندامت ہوئی کہ شاید ہم نے رسول اللہ کو ان کی خواہش کے برعکس باہر نکلنے پر مجبور کرکے ٹھیک نہیں کیا۔ چنانچہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ اگر مدینہ کے اندر رہ کر مقابلہ کرنا پسند فرمائیں تو اندر ہی رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’لباس حرب پہن لینے کے بعد کسی نبی کے لائق نہیں ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے کے بغیر واپس ہویا لباس اُتارے ‘‘چنانچہ مسلمان ایک ہزار کی تعداد میں روانہ ہوگئے۔ فوجی قواعد کے مطابق صفیں ترتیب دیں۔ ہر ایک دستہ کو اس کے مناسب ٹھکانے پر بٹھایا اور فرمایا کہ جب تک میں نہ کہوں جنگ شروع نہ کی جائے۔ (حاکم: ۲/ ۱۲۸) عبداللہ بن اُبی کا کردار: مدینہ سے باہر نکل کر عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں سمیت یہ کہہ کر واپس آگیا کہ میری بات نہیں مانی گئی تو ہم کیوں لڑیں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں کیوں ڈالیں۔ اس کے اس فیصلے سے وقتی طور پر بعض مسلمان بھی متاثر ہوگئے مگر چونکہ سچے مسلمان تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا۔