قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے، اے میرے وہ بندوں جنہوں نے اپنے آپ پر ( گناہوں کا ارتکاب کرکے) زیادتی (٣٤) کی ہے، تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا، بے حد مہربان ہے
تو یہ تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ: اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی وسعت کا بیان ہے ’’اسراف‘‘ کے معنی ہیں گناہوں کی کثرت اور اس میں افراط اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا ہے۔ مطلب ہے کہ ایمان لانے سے پہلے یا توبہ و استغفار کا احساس ہونے سے پہلے کتنے بھی گناہ کیے ہوں کیسے ہی ہوں انسان یہ نہ سمجھے کہ میں تو بہت زیادہ گناہ گار ہوں مجھے اللہ تعالیٰ کیوں کر معاف کرے گا۔ بلکہ سچے دل سے اگر ایمان قبول کر لے گا یا توبۃ النصوح کرلے گا تو اللہ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ کچھ کافر و مشرک تھے جنھوں نے کثرت سے قتل و زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت صحیح ہے۔ لیکن ہم لوگ بہت زیادہ خطا کار ہیں۔ اگر ہم ایمان لے آئیں تو کیا وہ سب معاف ہو جائیں گے، جس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ (بخاری: ۴۸۱۰، مسلم: ۱۲۲) اس آیت میں تمام نافرمانوں کو گو وہ مشرک و کافر بھی ہوں توبہ کی دعوت دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ کی ذات غفور و رحیم ہے۔ وہ ہر تائب کی توبہ قبول کرتا ہے۔ ہر جھکنے والے کی طرف متوجہ ہوتا۔ توبہ کرنے والے کے اگلے گناہ بھی فرما دیتا ہے گووہ کیسے ہی ہوں، کتنے ہی ہوں کبھی کے ہوں۔