هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
تم خود دیکھ لو کہ تم تو ان سے محبت (84) رکھتے ہو اور وہ تمہیں بالکل نہیں چاہتے، اور تم تو تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور (ان کا حال یہ ہے کہ) وہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو تم سے مارے غصہ کے اپنی انگلیاں اپنے دانتوں سے کاٹتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اپنے غصہ میں مرتے رہو، اللہ دلوں کی باتوں کو خوب جانتا ہے
یہ عجیب معاملہ ہے کہ تم تو تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہو جس میں تورات بھی شامل ہے۔ لیکن اہل کتاب تمہارے قرآن پر ایمان نہیں رکھتے اس لیے اُن کو تم سے شکایت ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہوسکتی البتہ شکایات اگر ہوسکتیں تو وہ تمہیں ہونی چاہیے تھیں کہ کیوں کہ وہ قرآن کو نہیں مانتے لیکن یہاں تو معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے یہ کیسی الٹی گنگا ہے۔ کہ منافقانہ طور پر کہتے ہیں کہ ہم بھی قرآن پر ایمان لے آئے حالانکہ جب وہ تمہارا اتحاد و اتفاق، آپس میں پیار و محبت یا پے درپے کامیابیاں اور کامرانیاں دیکھتے ہیں تو غصہ کے مارے اپنی انگلیاں دانتوں میں چبانے لگتے ہیں، کیونکہ ان کو روکنے میں ان کا کچھ بس نہیں چلتا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے’’کہ تم خواہ غصہ میں جل بھن جاؤ اللہ تعالیٰ اپنے مشن کو کامیاب کرکے رہے گا اور دین اسلام ایک غالب دین کی حیثیت سے بلند ہوکر رہے گا اور تمہارے دلوں میں بغض اور عناد کی جو لہریں اٹھتی ہیں اللہ ان سے بھی پوری طرح واقف ہے۔‘‘