سورة الزمر - آیت 23

اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ نے سب سے اچھا کلام ( ١٧) نازل فرمایا ہے، یعنی ایک کتاب جس کی آیتیں معانی میں ملتی جلتی ہیں، جنہیں بار بار دہرایا جاتا ہے، جنہیں سن کر ان لوگوں کے بدن کانپ جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف مائل ہوتے ہیں، یہ قرآن اللہ کی ہدایت ہے، وہ اس کے ذریعہ جسے چاہتا ہے راہ حق دکھاتا ہے، اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قرآنِ بہترین کلام ہے: قرآن بہترین کلام اس لحاظ سے ہے کہ اس کی آیات ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ اس کا انداز بیان دلنشین ہے اس کے دلائل عام فہم ہیں۔ جن سے ایک دیہاتی بھی ایسے ہی مستفید ہو سکتا ہے جیسے کوئی جید عالم۔ اور اس کے احکام و فرامین دنیا میں بہترین زندگی گزارنے کا راستہ بتاتے ہیں۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے۔(مسلم: ۸۶۷) ملتی جلتی آیات: یعنی قران میں اگر ایک مضمون بیس مقامات پر آیا ہے تو بھی اس میں اختلاف و تضاد واقع نہیں ہوتا۔ انداز بیان اور اختلاف الفاظ کے باوجود ایک جگہ کا مضمون دوسری جگہ کے مضمون کی تائید و توثیق ہی کرتا ہے۔ جس سے پوری طرح بات ذہن نشین ہو جاتی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ (اِنَّ الْقُرْاٰنَ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا) (یعنی بعض اس کے دوسرے بعض کی تفسیر کرتا ہے) یہ تو ممکن ہے کہ ایک جگہ اجمال ہو اور دوسری جگہ تفصیل۔ مگر تضاد و اختلاف واقع نہیں ہوتا۔ ایک آیت دوسری کے مشابہ اور ایک حرف دوسرے حرف سے ملتا جلتا ہے۔ ایک ایک ذکر کئی کئی جگہ اور پھر بے اختلاف۔ بعض آیتیں ایک ہی بیان میں ہیں۔ سورہ آل عمران(۷) میں فرمایا: ﴿وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ﴾ وہی اللہ جس نے تم پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں پس جن کے دلوں میں کمی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لیے۔ حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں۔ اور نصیحت تو صرف عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں۔ مثالی آیات کیسی ہیں: مثالی آیات سے مراد ایک تو ایسی آیات ہیں جو بار بار پڑھتی جاتی ہیں۔ اسی لحاظ سے سورہ فاتحہ کو سبع المثانی کہا گیا ہے۔ یہ نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہیں۔ دوسری مراد وہ آیات ہیں جو قرآن میں بہ تکرار وارد ہیں مثلاً (وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ) یا (وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ) یا (فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ) تیسری مراد اقوام سابقہ کے انجام سے خبردار کرنے والی آیات یا انبیا کے قصص ہیں۔ جو قرآن میں بار بار مختلف پیرائیوں میں مذکور ہوئے چوتھی مراد ایسی آیات ہیں جن میں نوعی تقابل پایا جاتا ہے۔مثلاً جہاں اہل جنت کا ذکر ہے وہاں اہل دوزخ کا ذکر بھی آ جاتا ہے۔ جہاں رات کا ذکر ہے وہاں دن کابھی ہے، مو منوں کے ساتھ ہی کافروں کا ذکر۔ جہاں اللہ کی صفت قہار کا ذکر ہے تو اگلی آیت میں صفت غفار یا غفور کا ذکر ہے۔ جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں: یعنی اللہ کی پاک آیتوں کا جو مومنوں کے دل پر نور پڑتا ہے وہ انھیں سنتے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ سزاؤں اور دھمکیوں کو سن کر ان کا کلیجہ کپکپانے لگتا ہے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور انتہائی عاجزی اور بہت ہی گریہ زاری سے ان کے دل اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں۔ اس کی لطف و رحمت پر نظریں ڈال کر اُمیدیں بندھ جاتی ہیں اور وہ اللہ کے ذکر میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان میں اولیاء اللہ کی صفت بیان کی گئی ہے کہ خوف سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ اور ان کے دلوں کو اللہ کے ذکر سے اطمینان ملتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ مدہوش اور حواس باختہ ہو جائیں اور عقل و ہوش باقی نہ رہے کیوں کہ یہ بدعتیوں کی صفت ہے اور اس میں شیطان کا دخل ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) قرآن سے ہدایت لینے والے اور گمراہ ہونے والے: ہدایت یافتہ گمراہ رب کے کلام کو نیکیوں سے سنتے ہیں۔ وہ گانے بجانے پر سر دھنستے ہیں۔ ان کا آیات قرآنی سے ایمان بڑھتا ہے۔ وہ انھیں سن کر کفر کے سینے پر چڑھتے ہیں۔ یہ روتے ہوئے سجدوں میں گر پڑتے ہیں۔ وہ مذاق اڑاتے ہوئے اکٹرتے ہیں۔ (ابن کثیر) جیسا کہ سورہ انفال (۲) میں فرمایا: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ﴾ کہ یاد الٰہی مومنوں کے دلوں کو ہلا دیتی ہے۔ وہ ایمان و توکل میں بڑھ جاتے ہیں نماز و زکوٰۃ و خیرات کا خیال رکھتے ہیں۔ سچے با ایمان یہی ہیں درجے، مغفرت اور بہترین روزیاں ہی پائیں گے۔ سورہ فرقان میں ہے: ﴿وَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّ عُمْيَانًا﴾ کہ بھلے لوگ آیات قرآنیہ کو بہروں، اندھوں کی طرح نہیں سنتے پڑھتے۔ بلکہ یہ کان لگا کر سنتے ہیں دل لگا کر سمجھتے ہیں غور و فکر سے معافی و مطلب تک رسائی حاصل کرتے ہیں اب توفیق ہاتھ آتی ہے سجدے میں گر پڑتے ہیں اور تعمیل کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں یہ خود اپنی سمجھ سے کام کرنے والے ہوتے ہیں۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی جاہلیت کے پیچھے نہیں پڑے رہتے۔ ان کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ قرآن سننے کے وقت با ادب رہتے ہیں۔ ان میں خشوع و خضوع پیدا ہو جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت سن کر صحابہ کرام کے جسم و روح ذکر اللہ کی طرف جھک جاتے تھے یہ نہ تھا کہ چیختے چلاتے اور اچھلتے کودتے اور کپڑے پھاڑتے تھے۔ بلکہ ثبات سکون، ادب اور خشیت کے ساتھ قرآن سنتے تھے۔ یہ صفتیں ان لوگوں کی ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی ہے ان کے خلاف جنہیں پاؤ سمجھ لو کہ اللہ نے انھیں گمراہ کر دیا ہے اور یقین رکھو کہ رب جنھیں ہدایت نہ دینا چاہے انہیں کوئی راہ راست نہیں دکھا سکتا۔