قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ
(اللہ نے) کہا اے آدم، تو ان فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتا، جب آدم نے فرشتوں کو ان کے نام بتا دئیے، تو اللہ نے کہا، کیا میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی (٧٣) ہوئی باتوں کو جانتا ہوں اور جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو
جب فرشتوں کو آدم کے علمی احاطہ کا علم ہوگیا تو انھوں نے اپنے عجز کا اعتراف کرلیا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو وہ بات بتادی جو وہ نہیں جانتے تھے۔ وہ یہ تھی کہ انسان میں اگر فتنہ و شر کا پہلو ہے تو اصلاح و درستی کا پہلو بھی موجود ہے۔ اور صلاح و خیر کا پہلو غالب ہے اسی لیے اسے خلیفہ بنایاجارہا ہے اور وہ علمی کمال کی وجہ سے اس کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ علم عبادت سے افضل ہے عبادت کا تعلق صرف مخلوق سے ہے۔ جب علم کا تعلق خالق و مخلوق دونوں سے ہے اور سب سے بڑا علیم و خبیر تو اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان فرشتوں جیسی عبادت تو نہیں کرسکتا ہاں علم کی بناء پر فرشتوں پر فضیلت اور حق خلافت قرارپایا ہے۔