فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَن ذِكْرِ رَبِّي حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ
تو انہوں نے کہا کہ میں اپنے رب کی یاد سے غافل ہو کر ان گھوڑوں میں دلچسپی لینے لگا، یہاں تک کہ آفتاب پر دے میں چھپ گیا
جب ’’رسالہ‘‘ آپ کی نگاہوں کے سامنے سے اوجھل ہو گیا: یہ عمدہ اصلی، تیز رو گھوڑے حضرت سلیمان علیہ السلام پر معائنے کی لیے پیش کیے گئے۔ ’’ بالعشیِّ‘‘ ظہریا عصر سے لے کر آخر دن تک کے وقت کو کہتے ہیں جسے ہم شام سے تعبیر کرتے ہیں۔ تو ارَتْ بالحجاب سے بعض مفسرین نے یہ مراد لی ہے کہ جب گھوڑوں کا رسالہ نظروں سے چھپ گیا اور بعض نے یہ مراد لی ہے کہ جب سورج غروب ہو گیا۔ پہلے معنی کے لحاظ سے تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ ایک دن پچھلے پہر حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے گھوڑوں کا معاینہ کر رہے تھے۔ پھر ان کی دوڑ کرائی تاآنکہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے چوں کہ یہ سارا سلسلہ جہاد کی خاطر تھا اس لیے آپ اس شغل سے بہت محظوظ ہوئے۔ اور کہنے لگے کہ میں نے اپنے پروردگار کی یاد کی وجہ سے ہی یہ شغل پسند کیا ہے۔ پھر گھوڑے اپنے پاس طلب کیے اور شفقت سے ان کی گردنوں اور ان کی پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے تفسیر یہ ہے کہ آپ علیہ السلام گھوڑوں کے شغل میں اتنے محو ہوئے کہ سورج غروب ہو گیا اور اس شغل نے آپ علیہ السلام کو اللہ کی یاد یعنی نماز سے غافل کر دیا اس واقعہ سے آپ علیہ السلام کو بہت دکھ ہوا۔ آپ نے گھوڑوں کو مخاطب کیا اور ان کی گردنیں اور پنڈلیاں کاٹنا شروع کر دیں اور چند گھوڑے ذبح کر کے ان کا گوشت محتاجوں میں تقسیم کر دیا۔ چوں کہ آپ نے یہ کام اللہ کی محبت کی خاطر کیا تھا اس لیے آپ کو یہ صلہ دیا کہ ہواؤں کو آپ کے تابع کر دیا اور آپ کو گھوڑوں کے رسالے کی اتنی احتیاج ہی نہ رہی۔