أَأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّن ذِكْرِي ۖ بَل لَّمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ
کیا ہمارے درمیان سے اسی پر قرآن اتار دیا گیا ہے، بلکہ وہ لوگ میرے قرآن کی صداقت میں شبہ کرتے ہیں، بلکہ انہوں نے اب تک میرا عذاب نہیں چکھا ہے
قریش کا قول، کیا نبوت کے لیے یہی شخص رہ گیا تھا: یعنی مکے میں بڑے بڑے رئیس اور چودھری ہیں اگر اللہ کو کسی کو نبی بنانا ہی تھا تو ان میں سے کسی کو بناتا۔ ان سب کو چھوڑ کر وحی و رسالت کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب بھی عجیب ہے۔ یہ گویا انھوں نے اللہ کے انتخاب میں کیڑے نکالے۔ سورہ زخرف میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے یعنی یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا، کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تسلیم کرتے ہیں؟ یعنی ان کا انکار اس لیے نہیں ہے کہ انھیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا علم نہیں ہے۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامت عقل سے انھیں انکار ہے۔ بلکہ یہ اس وحی کے بارے میں ہی ریب و شک میں مبتلا ہیں جو آپ پر نازل ہوئی جس میں سب سے نمایاں توحید کی دعوت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اعتراض بھی ان کی حماقت کا غرہ تھا۔ اور وجہ یہ ہے کہ اب تک یہ چکنی چپڑی ہوئی کھاتے رہے ہیں۔ ہمارے عذابوں سے ان کا سابقہ نہیں پڑا۔ کل قیامت کے دن جب دھکے دے کر جہنم میں گرائے جائیں گے تو اس وقت اپنی اس سرکشی کا مزہ پائیں گے۔