قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنتُمْ شُهَدَاءُ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
(اے نبی !) آپ کہئے کہ اے اہل کتاب ! تم اللہ کے راستہ سے ان لوگوں کو کیوں روکتے ہو جو ایمان لے آئے ہیں، اس میں عیب جوئی کرتے ہو، حالانکہ تم اس کے دین برحق ہونے کے دل سے معترف ہو، اور اللہ تمہارے کرتوتوں سے غافل نہیں ہے
یہود کی اسلام دشمنی کا ایک طریقہ یہ تھا کہ جو شخص مسلمان ہونے لگتا اسے طرح طرح کے شکوک و شبہات میں مبتلا کردیتے تھے جیسے: (۱) جس نبی آخرالزماں کی بشارت دی گئی ہے یہ وہ نبی نہیں ہیں۔ (۲) اگر یہ سچا نبی ہوتا تو وہ قبلہ کیوں تبدیل کرتا جو سب انبیاء کا قبلہ رہا ہے۔ (۳) جو چیزیں حرام ہیں انھیں حلال کیوں بنارہا ہے، غرض یہ یہود تعصب، ضد، اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے مسلمانوں کو روکتے تھے، طاقت کے ذریعے روکتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کے کاموں سے بے خبر نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہودی کبھی راضی نہیں ہونگے، سورہ بقرہ(۱۲۰): اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو یہ تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں گے، شکوک و شبہات پیدا کرکے اعتراضات کرکے۔