كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں
محسنین سے مراد: نیکی کرنے والے یا نیکو کار ہیں اور احسان سے مراد۔ کسی کام کو بہتر سے بہتر طریقے پر انجام دینا ہے۔ جیسا کہ حدیث جبرائیل میں ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یہ احسان کیا چیز ہے؟ تو اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تو اللہ کی عبادت ایسے کر جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اور اگر یہ نہ ہو سکے تو کم از کم اتنا تو سمجھ کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔(بخاری: ۵۰، مسلم: ۹) احسان میں کم از کم تین باتوں کا ہونا ضروری ہے۔ (۱)جو کام کیا جائے پوری خلوص نیت سے اور رضائے الٰہی کے لیے کیا جائے۔ (۲)حکم کی تعمیل محض اطاعت کے جذبہ سے نہ ہو بلکہ اس میں مطاع کی محبت کا جذبہ بھی شامل ہو۔ (۳)کام کے آداب و ارکان کو اس طریقہ سے سر انجام دیا جائے جو بہتر سے بہتر ہو سکے۔ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے چونکہ ہر کام احسان کے ساتھ کیا تھا، لہٰذا اللہ نے دنیا میں انھیں دو طرح کا بدلہ دیا۔ ایک یہ کہ رہتی دنیا تک ان پر سلامتی کی دعائیں کی جایا کریں جیسا کہ ہم ہر نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر بھی درود و سلام کی دعا کرتے ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ اکثر مذاہب والے انھیں اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں ان سے نسبت جوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کا ذکر اچھے الفاظ میں ہی کرتے ہیں۔