سورة الصافات - آیت 102

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس جب وہ ان کے ساتھ دوڑلگانے کی عمر کو پہنچ گیا، تو انہوں نے کہا، میرے بیٹے ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، پس تم سوچو کہ تمہاری کیا رائے ہوتی ہے، بیٹے نے کہا، ابا جان ! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے وہ کر گذرئیے، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

بیٹے کو ذبح کرنے کے متعلق خواب: سیدنا اسماعیل علیہ السلام جب اس عمر کو پہنچے کہ وہ اپنے باپ کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹا سکتے تھے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ایک اور بہت بڑی آزمائش میں ڈالا گیا۔ آپ علیہ السلام کو مسلسل تین راتیں خواب آتا رہا کہ آپ اپنے پیارے بچے کو ذبح کر رہے ہیں۔ چنانچہ آپ نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے۔ بیٹے سے سوال: چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نوجوان بیٹے کو یہ خواب بتا کر ان کی رائے دریافت کی۔ بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا امر الٰہی کے لیے کس حد تک تیا رہے۔ پیغمبر کا خواب وحی، اور حکم الٰہی ہی ہوتا ہے۔ خواب سن کر سیدنا اسماعیل علیہ السلام بھی اسی نتیجہ پر پہنچے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ چنانچہ وہ جواب دیتے ہیں کہ ابا جان! پھر دیر کیوں لگا رہے ہیں یہ باتیں بھی پوچھنے کی ہوتی ہیں جو حکم ہوا ہے اسے فوراً کر ڈالئے۔ ان شا اللہ میرا صبر آپ کا جی خوش کر دے گا۔ سبحان اللہ جو کہا تھا وہی کر کے دکھایا۔ اور اپنے والد کی انتہائی خوشنودی حاصل کر لی اور اپنے پروردگار کی بھی۔