سورة يس - آیت 68

وَمَن نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا يَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم جسے لمبی عمر (٣٣) دیتے ہیں، اس کی پیدائشی صلاحیتوں کو الٹ دیتے ہیں، کیا لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ہیں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سورہ روم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۢ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُعْفًا وَّ شَيْبَةً يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَ هُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ﴾ اللہ وہ ہے جس نے تمہیں ناتوانی کی حالت میں پیدا کیا، پھر ناتوانی کے بعد طاقت عطا فرمائی، پھر طاقت و قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا دیا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ خوب جاننے والا اور پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ ایک اور آیت میں ہے کہ تم میں سے بعض بہت بڑی عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ تا کہ علم کے بعد وہ بے علم ہو جائیں۔ پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا زوال اور انتقال کی جگہ ہے۔ یہ پائیدار اور قرا گاہ نہیں ہے پھر بھی کیا یہ لوگ عقل نہیں رکھتے کہ اپنے بچپن، پھر جوانی، پھر بڑھاپے پر غور کریں اور اس سے یہ نتیجہ نکال لیں کہ اس دنیا کے بعد آخرت آنے والی ہے اور اس زندگی کے بعد میں دوبارہ پیدا ہونا ہے۔