سورة يس - آیت 39

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ماہتاب کی ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں (جن سے وہ گذرتا ہے) یہاں تک کہ وہ آخر میں کھجور کی قدیم پتلی شاخ کی مانند ہوجاتا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اشکال قمر اور منازل قمر: سورج ہمیشہ مشرق سے طلوع ہو کر شام کو مغرب میں غروب ہو جاتا ہے اور اس کی شکل بھی ایک ہی جیسی رہتی ہے جب کہ چاند کا مسئلہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ وہ کسی بھی قمری مہینے کی ابتدا میں مغرب سے نمودار ہوتا ہے اور بالکل ایک پھانک سی نظر آتا ہے جسے قرآن کریم نے کھجور کی پرانی اور خشک ٹہنی سے تشبیہ دی ہے اور لغت عربیہ میں اسے ہلال کہتے ہیں۔ دوسرے دن یہ ذرا موٹا ہو جاتا ہے اور مشرق کی طرف ہٹ کر نمودار ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ روز بروز شکلیں بدلتا رہتا ہے۔ اور پورا چاند بنتا جاتا ہے حتی کہ سات دن بعد عین سر پر طلوع ہوتا ہے اور نصف دائرہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے پھر چودھویں دن مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور پورا گول ہوتا ہے۔ گویا ہر روز وہ نئی شکل بدلتا ہے اور ہر روز اس کے طلوع و غروب دونوں کی منزل جداگانہ ہوتی ہے۔ پھر یہ گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ پھر پہلے کی طرح پھانک کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہی اللہ کی طرف سے چاند کی مقرر کردہ منزلیں ہیں چاند کی ان گردشوں سے اہل ارض اپنے دنوں، مہینوں اور سالوں کا حساب اور اپنے اوقات عبادت کا تعین کرتے ہیں۔ سب اپنے مدار میں تیزی سے رواں ہیں: حضرت عکرمہ فرماتے ہیں، رات کو سورج طلوع نہیں ہو سکتا۔ نہ رات دن سے سبقت کر سکتی ہے یعنی رات کے بعد دوسری رات نہیں آسکتی بلکہ درمیان میں دن آ جائے گا۔ پس سورج کی سلطنت دن کو ہے اور چاند کی بادشاہت رات کو ہے۔ ادھر رات جاتی ہے تو اُدھر سے دن آجاتا ہے دونوں ایک دوسرے کے تعاقب میں ہیں لیکن نہ تصادم کا ڈر ہے نہ بے نظمی کا خطرہ ایک آتا ہے ایک جاتا ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے وقت پر غائب و حاضر ہوتا رہتا ہے سب کے سب یعنی سورج چاند، دن رات فلک آسمان میں تیر رہے ہیں اور گھومتے پھرتے ہیں۔ (ابن کثیر)