سورة يس - آیت 38

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آفتاب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے، یہ نظام اس اللہ کا بنایا ہوا ہے جو بڑا زبردست، سب کچھ جاننے والا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح فضا میں دوسرے تمام سیارے اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں اسی طرح سورج بھی اپنے مدار یا اپنی مقررہ گزرگاہ پر چل رہا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر غالب اور اپنی مخلوقات کے تمام تر حالات سے واقف ہے، چاہے گا کہ سورج اپنی مقررہ گزر گاہ پر چلتا رہے تو وہ چلتا رہے گا جیسا کہ اس حدیث سے واضح ہے۔ ’’سورج کا عرش الٰہی کے نیچے سجدہ ریز ہونا‘‘ ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ جانتے ہو کہ سورج غروب ہونے کے بعد کہاں جاتا ہے؟‘‘ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سورج غروب ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ اور دوسرے دن طلوع ہونے کی اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت دے دی جاتی ہے پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ اس سے کہا جائے گا کہ تو جدھر سے آیا ہے اُدھر ہی لوٹ جا۔ پھر وہ مغرب سے طلوع ہو گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی۔ (بخاری: ۳۱۹۹) اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اجرام فلکی اور ان کے نظام پر اللہ حکیم و خیبر کا زبردست کنٹرول ہے کہ ان میں نہ تو تصادم و تزاحم ہوتا ہے۔ اور نہ ہی ان کی مقررہ گردش میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا۔ اس کے بعد نظام کائنات بگڑ جائے گا۔