اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا
اور ایسا انہوں نے زمین میں اپنے کبر و غرور اور بری سازشوں کی وجہ سے کیا، حالانکہ بری سازش ہمیشہ سازشیوں کے ہی گلے کا پھندا بن جاتی ہیں، پس کیا یہ لوگ اقوام گذشتہ کی مانند عذاب کا انتظار کر رہے ہیں، پس آپ اللہ کے طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے، اور نہ آپ اللہ کے طریقے کو ٹلنے والا پائیں گے
یعنی انھوں نے اللہ تعالیٰ کی باتیں ماننے سے تکبر کیا۔ خود نہ مان کر بھی اور پھر اپنی مکاریوں سے اللہ کے دوسرے بندوں کو بھی اللہ کی راہ سے روک کر بھی، لیکن ان کو جان لینا چاہیے کہ اس کا وبال خود ان پر پڑے گا یہ اللہ کا نہیں بلکہ اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مکاریوں سے پرہیز کرو۔ مکر کا بوجھ مکار پر ہی پڑتا ہے۔ اور اس کی جواب دہی اللہ کے ہاں ہو گی حضرت محمد بن کعب قرظی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، تین کاموں کا کرنے والا نجات نہیں پا سکتا ۔ ان کاموں کا وبال ان پر یقیناً آئے گا مکر، بغاوت اور وعدوں کو توڑ دینا۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ (ابن کثیر: ۴/ ۳۷۵) انھیں صرف اس حال کا انتظار ہے جو ان جیسے پہلے لوگوں کا حال ہوا کہ اللہ اور اس کے رسولوں کی تکذیب کرنے اور فرمان رسول کی مخالفت کی وجہ سے اللہ کے دائمی عذاب ان پر آ گئے پس یہ تو اللہ تعالیٰ کی عادت ہے اور تو غور کر۔ کہ رب کی عادت بدلتی نہیں نہ پلٹتی ہے۔ جس قوم پر عذاب الٰہی کا ارادہ ہو چکا، پھر اس ارادے کے بدلنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتا۔ ان پر سے عذاب نہ ہٹیں نہ وہ ان سے بچیں۔