سورة فاطر - آیت 33

جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یہ لوگ ” جنات عدن“ میں داخل ہوں گے جہاں انہیں سونے اور موتی کے کنگن پہنائے جائیں گے، اور ان جنتوں میں ان کا لباس ریشم کا ہوگا

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

عیش و عشرت کی وہ انتہا جو اس دنیا میں سمجھی جاتی تھی۔ وہ سونے کے کنگن اور ریشم کا نرم و نازک لباس ہے جو راجے مہاراجے پہنتے تھے۔ اس لیے ان چیزوں کا نام لیا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جنت والوں کا لباس اور عیش و عشرت اس دنیا کے بادشا ہوں، اور راجوں مہاراجوں سے بے انتہاء زیادہ ہو گا۔ سونا اور ریشم اس دنیا میں امت مسلمہ کے مردوں پر حرام کیا گیا ہے۔ جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ سب سے بڑی اور عام فہم بات ہے کہ لوگ ایسی عیاشیوں میں پڑ کر اپنی ذات پر ہی اس طرح خرچ کرنا شروع نہ کر دیں کہ غریبوں کا خیال نہ رکھ سکیں گے یہی باتیں طبقاتی تقسیم اور اس سے آگے بہت بڑے فتنہ و فساد کا پیش خیمہ بنتی ہیں مگر جنت میں چونکہ ایسی خرابیوں کا احتمال ہی نہ ہو گا لہٰذا وہاں یہ چیزیں جائز ہوں گی۔