وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
اور کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ (١٣) نہیں اٹھائے گی، اور اگر اپنے بوجھ تلے دبی ہوئی کوئی جان اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے کسی کو پکارے گی، تو اس بوجھ کا کوئی حصہ بھی (اس کی طرف سے) اٹھایا نہیں جائے گا، چاہے وہ کوئی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کے ڈرانے سے صرف وہی لوگ مستفید ہوں گے جو اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو شخص اپنے آپ کو پاک بناتا ہے، تو اس کا فائدہ اسی کو ملتا ہے، اور اللہ کی طرف ہی سب کو لوٹ کر جانا ہے
قیامت کے دن کوئی دوسرے کے گناہ اپنے اوپر نہ لے گا۔ اگر کوئی گنہگار اپنے بعض یا سب گناہ دوسرے پر لادنا چاہے تو اس کی یہ چاہت بھی پوری نہ ہو گی عزیز و اقارب بھی منہ موڑ لیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے گو وہ ماں باپ اور اولاد ہی ہوں۔ ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہو گی۔ جیسا کہ سورۂ لقمان میں ارشاد ہے کہ اس دن ﴿يٰاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِيْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَيْـًٔا اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا وَ لَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ﴾ نہ باپ بیٹے کےکام آئے نہ بیٹا باپ کے کام آئے۔ ہر شخص اپنے حال میں مست ہو گا۔ ہر ایک دوسرے سے غافل ہو گا۔ آپ کے وعظ و نصیحت سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو عقل مند اور صاحب فراست ہیں۔ جو بن دیکھے، قدم قدم پر اپنے رب کا خوف کرنے ولے ہیں۔ نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کرنے والے ہیں۔ اور اپنا طرز عمل پاکیزہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں ان کا اپنا ہی بھلا ہے۔ آخر اللہ کے پاس جانا ہے۔ اس کے سامنے پیش ہونا ہے حساب کتاب اس کے سامنے ہونا ہے۔ اعمال کا بدلہ وہ خود دینے والا ہے۔