وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ كَمَا فُعِلَ بِأَشْيَاعِهِم مِّن قَبْلُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا فِي شَكٍّ مُّرِيبٍ
اور ان کے درمیان اور ان کی خواہش ایمان کے درمیان رکاوٹ (٤٠) کھڑی کردی جائے گی، جیسا کہ اس سے قبل انہی جیسے لوگوں کے ساتھ کیا گیا تھا، بے شک وہ لوگ بہت ہی گہرے شک میں مبتلا تھے
اس وقت ان کی خواہشات کیا ہوں گی یہی کہ ہم ایمان لے آئیں یا ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے یا کوئی ایسی صورت بن جائے کہ ہم عذاب سے بچ سکیں یا ہمارے لیے کوئی سفارش کرنے والا یا ہمارا کوئی مدد گار ہی اُٹھ کھڑا ہو۔ اس دن ان کی اس قسم کی تمام خواہشات کو یوں ختم کر کے انھیں مایوس کر دیا جائے گا اور ان کی خواہشات کے آگے بند باندھ کر انھیں ان سے یکسر اوجھل کر دیا جائے گا۔ (تیسیر القرآن) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان سے پہلے کی اُمتوں کے ساتھ بھی یہی کیا گیا۔ وہ بھی موت کے وقت زندگی اور ایمان کی آرزو کرتے رہے جو محض بے سود تھی۔ ارشاد ہے: ﴿فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَ كَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ۔ فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا﴾ (المومن: ۸۴۔ ۸۵) ’’جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا کہنے لگے: ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جس جس کو ہم شریک الٰہی بتاتے تھے ان سب سے ہم انکار کرتے ہیں لیکن اس وقت ان کے ایمان نے انھیں کوئی فائدہ نہ دیا جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔‘‘ (ابن کثیر) ان سے پہلوں میں بھی یہی طریقہ الٰہی جاری رہا ہے کفار نفع سے محروم ہی ہیں یہاں فرمایا کہ یہ دنیا میں زندگی بھر شک و شبہ اور تردد میں ہی رہے اسی وجہ سے عذاب کے دیکھنے کے بعد کا ایمان بے کار ہے۔ الحمد للہ سورہ سبا کی تفسیر مکمل ہوئی ۔