قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ
آپ کہہ دیجیے کہ حق آگیا، اور باطل اب نہیں آئے گا اور نہ اپنے آپ کو دہرائے گا
حق آگیا: حق سے مراد قرآن اور باطل سے مراد کفر و شرک ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے اللہ کا دین اور اس کا قرآن آ گیا ہے، جس سے باطل مضمحل اور ختم ہو گیا ہے۔ اب وہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہا۔ ارشاد ہے: ﴿بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَ لَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ﴾ (الانبیاء: ۱۸) ’’بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے۔ اوروہ اسی وقت نابود ہو جاتا ہے تم جو باتیں بناتے ہو وہ تمہارے لیے باعث خرابی ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾ (بنی اسرائیل: ۸۱) ’’حق آ گیا، باطل مٹ گیا، وہ تھا ہی مٹنے والا۔‘‘ فرمایا یہ معبود قطعی بے اختیار اور مجبور محض ہیں یہاں باطل سے بعض لوگوں نے مراد معبودان باطل لیے ہے یعنی ان باطل معبودوں نے کائنات میں پہلے کون سی چیز پیدا کی تھی کہ اب وہ دوبارہ کچھ کر سکیں۔ یہ معبود قطعی بے اختیار اور مجبور محض ہیں۔