وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَن يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ وَقَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ مُّفْتَرًى ۚ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور جب ان کے سامنے ہماری صریح آیتوں کی تلاوت (٣٤) کی جاتی تھی تو وہ کہتے تھے کہ یہ آدمی تمہیں صرف ان معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی تمہارے آباؤ اجداد پرستش کیا کرتے تھے، اور یہ بھی کہتے تھے کہ یہ آیتیں اللہ پر افترا پردازی کے سوا کچھ نہیں ہیں، اور جن لوگوں نے ان کے پاس حق آجانے کے بعد اس کا انکار کردیا تھا، انہوں نے کہا کہ یہ کھلے جادو کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے
کفار مکہ قرآن کو جادو کیوں کہتے تھے: کفار کہتے تھے کہ یہ رسول ہمیں ہمارے طرز زندگی سے ہٹا کر نئی راہ پر ڈالنا چاہتا ہے۔ یعنی باپ داد ا کے دین سے ہٹا کر جو ان کے نزدیک صحیح تھا۔ اس لیے انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’جرم‘‘ یہ بیان کیا کہ یہ تمہیں ان معبودوں سے روکنا چاہتا ہے۔ جن کی تمہارے آباء و اجداد عبادت کرتے رہے۔ اللہ کے کلام یا قرآن کو کفار مکہ کا جادو کہنا اس لحاظ سے تھا کہ قرآن کے جادو اثر تاثیر سے وہ خائف رہتے تھے۔ انھوں نے مسلمانوں پر پابندی لگا رکھی تھی کہ وہ قران بلند آواز سے نہ پڑھا کریں کیونکہ اس طرح ان کے بیوی بچے قرآن سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی اس کی تاثیر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ مگر محض ہٹ دھرمی ضد اور چند دنیوی مفادات کی خاطر قرآن اور دعوت قرآن سے انکار کرتے تھے۔ پھر وہ جادو سے یہ مطلب بھی لیتے تھے کہ جو شخص بھی ایمان لے آتا ہے پھر اسے یہ پروا نہیں رہتی کہ فلاں شخص میرا باپ ہے یا بھائی یا بیٹا ہے۔ یا میری ماں یا بیٹی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور مشرکین مکہ چونکہ ایسی جدائی ڈالنے کے لیے جادوگروں کی خدمات حاصل کیا کرتے تھے اور اس کلام سے بھی ایسی ہی جدائی پڑ جاتی تھی تو اس لحاظ سے بھی وہ قرآن کو جادو کہہ دیتے تھے۔ اگرچہ وہ قرآن کے منکر تھے اس کے باوجود وہ اس بات کے قائل تھے کہ قرآن اپنے اندر جادو سے بھی زیادہ تاثیر رکھتا ہے۔ (تیسیر القرآن)