وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّهِ أَن يُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَاجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْ ۗ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور تم لوگ صرف اسی پر اعتماد (56) کرو جو تمہارے دین کی اتباع کرتا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے، (اور یہ ہرگز نہ مانو) کہ کسی کو ویسا ہی دین دیا جائے گا جیسا تمہیں دیا گیا ہے، یا وہ لوگ تمہارے رب کے پاس تم سے جھگڑیں گے، آپ کہہ دیجئے کہ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، جسے چاہتا ہے، عطا کرتا ہے، اور اللہ بڑا وسعت والا اور بڑا جاننے والا ہے
چوتھی کوشش ان کی یہ تھی کہ تم ظاہری طور پر تو اسلام کا اظہار ضرور کرو۔ لیکن اپنے مذہب یہودیت کے سوا کسی اور کی بات پر دھیان نہ دینا۔ اور خبردار انھیں تو رات کی کوئی ایسی بات بھی نہ بتانا جو تمہارے خلاف جاتی ہو ورنہ وہ قیامت کے دن اللہ کے حضور یہ کہہ دیں گے کہ ان باتوں کا تو یہ یہود خود بھی اقرار کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں اپنے پیارے پیغمبر سے فرمایا، کہ آپ کہہ دیجئے ان حیلوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ کیونکہ ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ جس کو ہدایت دے یا دینا چاہے، تمہارے حیلے اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ فضل و شرف تو اللہ کے اختیار میں ہے: یہودی علما اپنے لوگوں کو تاکید کرتے تھے کہ دیکھو صرف ظاہر میں مسلمان ہونا۔ سچے مسلمان نہ ہوجانا اور یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ جیسا دین، جیسی وحی و شریعت اور جیسا علم و فضل تمہیں دیا گیا ہے۔ ویسا ہی کسی اور کو بھی دیا جاسکتا ہے یا تمہارے بجائے کوئی اور حق پر ہے۔اور تمہارے خلاف حجت قائم کرسکتا ہے اور تمہیں غلط ٹھہرا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کوششوں اور شرارتوں کا جواب یہ دیا کہ بیشک ایک وقت تھا جب اللہ نے تمہیں تمام جہان والوں پر عزت و شرف بخشا تھا۔ لیکن تم مسلسل فتنہ انگریزیوں اور بد عہدیوں کی وجہ سے اب اس قابل نہیں رہے۔ فضل و شرف تو اللہ کے اختیار میں ہے وہ جسے اس کا مستحق سمجھے گا اُسے عطا کرے گا اور وہ جانتا ہے کہ یہ فضل کس کو دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تنگ نظر نہیں ہے۔ کہ فضل و شرف کے اہل لوگوں کو فضل و شرف عطا نہ فرمائے۔ وہ بڑا وسیع النظر ہے اور وہ جانتا ہے کہ تم اب اس فضل و شرف کے اہل نہیں رہے ہو۔