سورة الأحزاب - آیت 72

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بے شک ہم نے اپنی امانت (55) آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی، تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا، اور اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اسے اٹھا لیا، وہ بے شک بڑا ہی ظالم، نادان تھا

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

امانت کا بار جو انسان نے اٹھا لیا: امانت سے مراد خلافت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’ میں دنیا میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘ اللہ نے آسمان، زمین، پہاڑوں جیسی عظیم الجثہ مخلوق کو پیدا کر کے ان سے پوچھا: بتاؤ اگر میں تمہیں قوت ارادہ و اختیار عطا کر دوں اور تمہیں عقل و تمیز کی قوت بھی بخش دوں تو بتاؤ تم میرا خلیفہ بننے کو تیار ہو؟ تمہیں وہی کام کرنا ہو گا جو میں کہوں گا تمہیں نافرمانی کے اختیار کے باوجود میرے احکام پر کار بند رہنا اور اسے نافذ کرنا ہو گا۔ تو یہ تینوں قسم کی عظیم الجثہ مخلوق اس بار عظیم کو اٹھانے سے ڈر گئی۔ لیکن ان کے مقابلے میں ضعیف البنیان مخلوق جو ایک منٹ سانس نہ چلنے سے مر بھی سکتی ہے۔ اس بار عظیم کو اُٹھانے کے لیے تیار ہو گئی حضرت انسان نے بڑی جرأت سے کہا کہ مجھے اگر قوت، تمیز اور ارادہ و اختیار دے دیا جائے تو میں اس بار کو اٹھانے کے لیے تیار ہوں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس بات پر عہد بھی لیا جو عہد اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مکالمہ زبان حال سے ہوا تھا یا قال سے؟ یا یہ محض تمثیلی انداز ہے؟ یہ باتیں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے البتہ اتنا معلوم ہے کہ عہد الست تا قیامت پیدا ہونے والی انسان کی ارواح سے لیا گیا تھا۔ اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ انسان میں خلیفہ بننے اور نظام خلافت کو رائج کرنے کی صلاحیت بالقوہ موجود ہے۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مکلف مخلوق ایک نہیں دو ہیں۔ ایک انسان دوسرے جن، لیکن یہاں صرف انسان کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ اس لیے کہ جتنی استعداد اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھی، جنوں میں نہیں رکھی۔ اشرف المخلوقات انسان ہیں، جن نہیں۔ لہٰذا جن اس مکالمہ میں باالطبع شامل ہیں بالاصل نہیں۔ انسان ظالم اور جاہل کیسے؟ انسان ظالم اس لحاظ سے ہے کہ تمام مخلوق میں سب سے بلند منصب پر فائز ہونے کی خواہش کی وجہ سے اس نے اس ذمہ داری کو قبول تو کر لیا، مگر اس دار الامتحان دنیا میں آکر وہ دنیا کی رنگینیوں اور دلفریبیوں میں کچھ اس قدر محو و مستغرق ہو گیا کہ اسے یہ خیال بھی نہ آیا کہ وہ کتنی عظیم ذمہ داری اپنے سر پر لادے ہوئے ہے۔ اس طرح جو امانت اس کے سپرد کی گئی تھی وہ اس میں خیانت کا مرتکب ہوا۔ اور جاہل اس لحاظ سے ہے کہ اس کی ساری توجہ اسی طرف رہی کہ اسے تمام مخلوق میں سے سب سے اونچا اعزاز ملنے والا ہے۔ مگر اس اعزاز کی ذمہ داریوں کا احساس کرنے سے قاصر رہا۔ اکثر انسانوں نے یہ جاننے کی کوشش ہی کبھی نہیں کی کہ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے سے اس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ (تیسیر القرآن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ ہم میں سے نہیں جو امانت کی قسم کھائے۔‘‘ (ابو داؤد: ۳۲۵۳، مسند احمد: ۵/ ۳۵۲)