يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًا
اے ایمان والو ! تم ان کی طرح نہ ہوجاؤ(53) جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف پہنچائی تھی، تو اللہ نے ان لوگوں کی کہی بات سے ان کی براءت ظاہر کردی، اور وہ اللہ کے نزدیک بڑے اونچے مقام والے تھے
بنی اسرائیل کی موسیٰ علیہ السلام کو ایذا رسانی: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل برہنہ غسل کیا کرتے تھے۔ اور ان میں سے ایک اس دوران دوسرے کی طرف دیکھتا رہتا تھا۔ مگر موسیٰ علیہ السلام تنہا غسل فرمایا کرتے تھے۔ آپ بہت با حیا تھے۔ چنانچہ اپنا جسم انھوں نے کبھی لوگوں کے سامنے ننگا نہیں کیا۔ بنی اسرائیل کہنے لگے واللہ موسیٰ علیہ السلام کو ہمارے ساتھ غسل کرنے سے بجز اس کے اور کوئی بات مانع نہیں کہ وہ برص (جلدی بیماری) میں مبتلا ہیں۔ اتفاق سے ایک دن موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے لگے تو اپنا لباس ایک پتھر پر رکھ دیا۔ پتھر (اللہ کے حکم سے) کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے پیچھے دوڑے۔ حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے۔ انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھا تو سارے شبہات دور ہو گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نہایت حسین و جمیل اور ہر قسم کے داغ اور عیب سے پاک تھے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر پتھر کے ذریعے سے ان کی اس الزام اور شبہے سے براءت کر دی جو بنی اسرائیل کی طرف سے ان پر کیا جاتا تھا۔ (بخاری: ۴۷۹۹) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے اہل ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم ہمارے پیغمبر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسرائیل کی طرح ایذا مت پہنچاؤ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت ایسی بات مت کرو جسے سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قلق اور اضطراب محسوس کریں۔ جیسے ایک موقعہ پر مالِ غنیمت کی تقسیم میں ایک شخص نے کہا کہ اس میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ الفاظ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہوئے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمت ہو انھیں اس سے کہیں زیادہ ایذا پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا۔ (بخاری: ۳۱۵۰، مسلم: ۱۰۶۲، القرآن الحکیم) قرآن فرماتا ہے موسیٰ علیہ السلام اللہ کے نزدیک بڑے مرتبے والے اور مستجاب الدعوات تھے۔ جو دعا کرتے تھے قبول ہوتی تھی۔ سب سے بڑھ کر وجاہت کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ انھوں نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کے لیے نبوت مانگی اللہ نے وہ بھی عطا فرمائی۔ (ابن کثیر)