يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
اے میرے نبی ! ہم نے آپ کو گواہ بنا کر (37) اور جنت کی خوشخبری دینے والا اور جہنم سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دینے والے ہوں گے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر یہ اُترا ہے۔ کہ اے نبی ہم نے تجھے تیری اُمت پر گواہ بنا کر، جنت کی خوشخبری دینے والا، اور جہنم سے ڈرانے والا بنا کر اور اللہ کے حکم سے اس کی توحید کی شہادت کی طرف لوگوں کو بلانے والا بنا کر اور روشن چراغ قران کے ساتھ بنا کر بھیجا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی وحدانیت پر کہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں گواہ ہیں اور قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے اعمال پر گواہ ہوں گے۔ (طبرانی: ۲۰/ ۲۸۳) جیسے ارشاد ہے: ﴿جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰٓؤُلَآءِ شَهِيْدًا ﴾ یعنی ہم تجھے ان پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ (ابن کثیر) مومنوں پر اللہ کا فضل : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کی امت لوگوں کو حق کی طرف بلائے گی۔ حق کے ساتھ عدل و انصاف کرے گی۔ ان کی امداد کرنے والوں کو میں عزت والا کروں گا اور ان کے بلانے والوں کی مدد کروں گا۔ اور ان کے باغیوں اور ان کے بد خواہوں پر میں برے دن لاؤں گا۔ انھیں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث کر دوں گا جو اپنے رب كی طرف لوگوں کو دعوت دیں گے۔ نیکیوں کی باتیں بتائیں گے، برائیوں سے روکیں گے۔ نماز ادا کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، وعدے پورے کریں گے۔ اس خیر کو میں ان کے ہاتھوں پوری کروں گا جو ان سے شروع ہوئی ہے۔ یہ ہے میرا فضل جسے چاہوں دوں اور میں بہت بڑے فضل و کرم کا مالک ہوں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہما کو یمن کا حاکم بنا کر بھیج رہے تھے جو یہ آیت اُتری، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ خوشخبریاں سنانا، نفرت نہ دلانا، آسانی کرنا، سختی نہ کرنا، دیکھو مجھ پر یہ آیت اُتری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کو بشارت سنانے والے اور کافروں کو بد ترین عذاب کا ڈر سنانے والے ہیں۔ (ابن کثیر)