إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
بے شک مسلمان مردوں (28) اور مسلمان عورتوں کے لئے، اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے، اور فرمانبردار مردوں اور فرمانبردار عورتوں کے لئے اور سچے مردوں اور سچی عورتوں کے لئے، اور صبر کرنے والے مردوں اور صبر کرنے والی عورتوں کے لئے، اور عاجزی اختیار کرنے والے مردوں اور عاجزی اختیار کرنے والی عورتوں کے لئے، اور صدقہ کرنے والے مردوں اور صدقہ کرنے والی عورتوں کے لئے، اور روزہ دار مردوں اور روزہ دار عورتوں کے لئے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مردوں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مردوں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتوں کے لئے، اور اللہ کو خوب یاد کرنے والے مردوں اور اللہ کو خوب یاد کرنے والی عورتوں کے لئے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے
اسلام کی دس بنیادی اقدار: اس آیت میں مسلمانوں کی دس ایسی صفات کا ذکر آیا ہے جنہیں اسلام کی بنیادی اقدار کا نام دیا جا سکتا ہے۔ (۱)اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔(۲) ایمان ۔ جب تک انسان دعویٰ اسلام میں دل کی تصدیق کے ساتھ اعمال صالح بجا نہ لائے، اس کے ایمان کے دعویٰ کو غلط اور جھوٹا سمجھا جائے گا۔ (۳)صرف زبانی حد تک اللہ اور رسول کے احکام کے قائل نہیں ہوتے بلکہ عملی لحاظ سے بھی ہر وقت انھیں ماننے پر مطیع فرمان بن کر رہنے کو تیار رہتے ہیں۔ (۴)وہ سچے اور راست باز ہوتے ہیں۔ اپنے معاملات میں جھوٹ، مکر، ریاکاری اور دغا بازی سے حتی الوسع اجتناب کرتے ہیں۔ (۵)وہ اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ نیز احکام الٰہی پر پورے صبر و ثبات کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ (۶)ان میں تکبر نام کو بھی نہیں ہوتا۔ ان کی وضع قطع، چال ڈھال اور گفتگو کبر و نخوت سے پاک ہوتی ہے۔ (۷)وہ متصدق ہوتے ہیں۔ اس لفظ میں تین مفہوم شامل ہیں۔ کہ وہ زکوٰۃ (فرضی صدقہ) ادا کرتے ہیں۔ دوسرا یہ نفلی صدقات سے محتاجوں کی احتیاج کو دور کرتے اور ان کاموں میں خرچ کرتے ہیں جن کا شریعت نے حکم دیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ صدقہ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ (ترمذی: ۲۶۱۶) تیسرے یہ کہ اگر کسی سے قرض وغیرہ لینا ہو تو معاف کر دیتے ہیں۔ یعنی اپنے حق سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ (۸)وہ فرضی روزے تو ضرور رکھتے ہیں ان کے علاوہ نفلی روزے بھی حسب توفیق رکھتے ہیں۔ (۹)وہ زنا سے بھی بچتے ہیں۔ عریانی اور برہنگی سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔ (۱۰)وہ اپنے اکثر اوقات میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ یاد کرنے سے مراد تسبیح و تہلیل اور اللہ کے ذکر سے زبان کو تر رکھنا ہے۔ اور یاد سے مراد یہ ہے کہ وہ کوئی بھی کام کریں انہیں ہر وقت دل میں اللہ کا خوف رہتا ہے۔ پھر فرمایا یہ نیک صفتیں جن میں ہوں ہم نے ان کے لیے مغفرت تیار کر رکھی ہے اور اجر عظیم یعنی جنت بھی۔ شانِ نزول : حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور بعض دیگر صحابیات نے کہا کہ کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ مردوں سے ہی خطاب فرماتا ہے، عورتوں سے نہیں جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسند احمد: ۴/ ۳۰۱، ترمذی: ۱/ ۳۲۱) اس میں عورتوں کی دل جوئی کا اہتمام کر دیا گیا ہے ورنہ تمام احکام میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں سوائے مخصوص احکام کے جو صرف عورتوں کے لیے ہیں۔ اس آیت اور دیگر آیات سے واضح ہے کہ عبادت و اطاعت الٰہی اور اخروی درجات و فضائل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں۔ دونوں کے لیے یکساں طور پر یہ میدان کھلا ہے۔ اور دونوں زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور اجر و ثواب کما سکتے ہیں۔ جنس کی بنیاد پر کوئی کمی بیشی نہیں کی جائے گی۔ علاوہ ازیں مسلمان اور مومن کا الگ الگ ذکر کرنے سے واضح ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے۔ ایمان کا درجہ اسلام سے بڑھ کر ہے۔ (احسن البیان)