وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۚ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا
اور اللہ نے کافروں کو غیظ و غضب بھرے دلوں کے ساتھ واپس (٢٢) کردیا، اپنی کوئی بھی مراد حاصل نہ کرسکے اور اللہ مومنوں کی طرف سے قتال کے لئے کافی ہوگیا اور اللہ بڑی قوت والا، زبردست ہے
اللہ عزوجل کفار سے خود نبٹے گا: اللہ تعالیٰ نے طوفان بادوباراں بھیج کر اور اپنے نظر نہ آنے والے لشکر اُتار کر کافروں کی کمر توڑ دی۔ اور انھیں سخت مایوسی اور نامرادی کے ساتھ محاصرہ ہٹانا پڑا۔ بلکہ اگر رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اُمت میں نہ ہوتے تو یہ ہوائیں ان کے ساتھ بھی وہی کرتیں جو عاد والوں کے ساتھ اس بے برکت ہوا نے کیا تھا۔ کیونکہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ جب تک آپ ان میں ہیں اللہ انھیں عام عذاب نہیں کرے گا لہٰذا انہیں صرف ان کی شرارت کا مزہ چکھا دیا۔ جو سوچ سمجھ کر آئے تھے وہ سب خاک میں مل گیا کہاں کی غنیمت؟ کہاں کی فتح؟ جان کے لالے پڑ گئے اور ہاتھ ملتے، دانت پیستے، پیچ و تاب کھاتے، ذلت و رسوائی کے ساتھ نامرادی اور ناکامی سے واپس ہوئے۔ دنیا کا خسارہ الگ ہوا اور آخرت کا وبال الگ۔ اللہ نے اپنے لشکر کی لاج رکھ لی اور اپنے بندے کی مدد کی۔ اور خود ہی کافی ہو گیا۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے۔ اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا۔ اپنے بندے کی مدد کی، اپنے لشکر کی عزت کی۔ تمام دشمنوں سے آپ ہی نمٹ لیا۔ اور سب کو شکست دے دی۔ اس کے بعد اور کوئی بھی نہیں۔ (بخاری: ۴۱۱۴) جنگ احزاب کے موقعہ پر جناب باری تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ، اے کتاب کے اُتارنے والے، جلد حساب لینے والے ان لشکروں کو شکست دے اور انھیں ہلا ڈال۔ (بخاری: ۲۹۳۳، مسلم: ۱۷۴۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب کے موقع پر فرمایا تھا: اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے وہ ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے۔ (بخاری: ۴۱۱۰)