يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ۖ وَإِن يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا
یہ لوگ یہی سمجھ (١٧) رہے ہیں کہ دشمن کی فوجیں اب تک واپس نہیں گئی ہیں، اور اگر وہ فوجیں دوبارہ مڑ کر آجائیں تو ان کی خواہش ہوگی کہ وہ بادیہ میں چلے جائیں اور وہاں سے تمہارے احوال معلوم کرتے رہیں اور اگر یہ لوگ تمہارے درمیان ہوتے تو برائے نام ہی جنگ میں شریک ہوتے
ان کی بزدلی اور ڈرپوکی کا یہ عالم ہے کہ اب تک انھیں اس بات کا یقین ہی نہیں ہوا کہ کفار کا لشکر لوٹ گیا ہے۔ اور انھیں خطرہ ہے کہ وہ پھر کہیں آ نہ پڑے مشرکین کے لشکروں کو دیکھتے ہی ان کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کاش کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ اس شہر میں ہی نہ ہوتے۔ بلکہ گنواروں کے ساتھ کسی اُجاڑ گاؤں یا کسی دور دراز کے جنگل میں ہوتے۔ کسی آتے جاتے سے پوچھ لیتے کہ کہو بھئی لڑائی کا کیا حشر ہوا۔ اللہ فرماتا ہے کہ یہ اگر تمہارے ساتھ بھی ہوں تو بیکار ہیں۔ ان کے دل مردہ ہیں۔ نامرادی کے گھن نے انھیں کھوکھلا کر رکھا ہے۔ یہ کیا لڑیں گے اور کون سی بہادری دکھائیں گے؟ (ابن کثیر)