أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ أُولَٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا
یہ لوگ تم مسلمانوں کا ساتھ دینے میں بڑے بخیل (١٦) ہیں اور جب دشمنوں کا خوف لاحق ہوتا ہے تو آپ ان کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں گھوم رہی ہوتی ہیں اس آدمی کی طرح جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو پھر جب خطرہ ٹل جاتا ہے تو مال غنیمت کے بڑے ہی حریض بن کر اپنی تیز زبانوں کا تمہیں نشانہ بناتے ہیں یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں تھے اسی لئے اللہ نے ان کے اعمال ضائع کردیئے اور ایسا کرنا اللہ کے لئے بڑا آسان تھا
منافقوں کی بزدلی کا منظر: ان کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ کوئی خطرے یا دشمن کے حملے کی بات سن بھی لیں تو ان پر پہلے سے موت کی غشی طاری ہونے لگتی ہے۔ یہ حال ہو تو وہ مسلمانوں کا ساتھ دے بھی کیسے سکتے ہیں۔ اَشِحَّۃً: ایسے شخص کو کہتے ہیں جو مال سمیٹنے میں تو انتہا درجہ کا حریص ہو۔ مگر خرچ کرنے میں سخت بخیل ہو۔ یعنی جب جنگ میں تمہارا ساتھ دینے کا معاملہ ہو تو اس معاملہ میں وہ انتہائی بخل سے کام لیتے ہیں۔ مگر جب جنگ ختم ہو جائے میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہے، اور اموال غنیمت کی تقسیم کا موقع ہو تو پھر یہ لوگ مال پر مرتے جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ سارا مال ہمارے ہی ہاتھ آ جائے۔ پھر وہ طرح طرح کی اپنی وفا داریاں اور ہمدردیاں جتلانے لگتے ہیں۔ تاکہ مالِ غنیمت میں اپنا استحقاق ثابت کر سکیں۔ اعمال برباد ہو گئے: یعنی ان کے دلوں میں کفر ہی کفر چھپا ہوا ہے۔ اور اخری جزا کے لیے ایمان شرط اول ہے جو ان کے دلوں میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ لہٰذا ان کے سب اعمال رائیگاں جائیں گے اور جو بد اعمالیاں ہیں ان پر گرفت ضرور ہو گی اور ان کی سب سے بڑی بد عملی نفاق ہے۔ اللہ کے لیے آسان ہے: یعنی اپنے اعمال کی جزا ثابت کرنے کے لیے ان لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اور نہ ان کے پاس کوئی زور اور قوت ہے کہ اللہ کے لیے ان کے اعمال کو برباد کر دینا کچھ مشکل ہو۔ (تیسیر القرآن)