إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا
جب دشمن تم پر چڑھ آئے، تمہارے اوپر سے (٨) اور تمہارے نیچے سے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور دل گلے تک پہنچ گئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں مختلف قسم کے گمان کرنے لگے
آیت میں نیچے کی طرف سے آنے والوں سے مراد بنو قریظہ ہیں۔ شدت خوف اور سخت گھبراہٹ سے آنکھیں الٹ گئی تھیں یہ مسلمانوں کی اس کیفیت کا اظہار ہے۔ جس سے اس وقت وہ دو چار تھے۔ دل حلقوم کو پہنچ گئے تھے اور طرح طرح کے گمان ہو رہے تھے۔ یہاں تک کہ بعض منافقوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب لڑائی میں کافر غالب آ جائیں گے۔ عام منافقوں کا تو پوچھنا ہی کیا معتب بن قشیر رضی اللہ عنہ کہنے لگا کہ آنحضرت تو ہمیں کہہ رہے تھے کہ ہم قیصر و کسریٰ کے خزانوں کے مالک بنیں گے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ پاخانے کو جانا بھی دو بھر ہو رہا ہے۔ یہ مختلف گمان مختلف لوگوں کے تھے۔ مسلمان تو یقین کرتے تھے کہ غلبہ ہمارا ہی ہو گا جیسا کہ فرمان ہے ﴿وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ ﴾ (الاحزاب: ۲۲) لیکن منافقین کہتے تھے کہ اب کی مرتبہ سارے مسلمان مع آنحضرت کے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دئیے جائیں گے صحابہ نے عین اس گھبراہٹ اور پریشانی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور اس وقت ہمیں اس سے بچاؤ کی کوئی دعا تلقین کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعا مانگو: (اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْ عَاتِنَا) ’’اللہ ہماری پردہ پوشی کر اور اللہ ہمارے خوف ڈر کو امن و امان سے بدل دے۔‘‘ ادھر مسلمانوں کی یہ دعائیں بلند ہوئیں۔ ادھر اللہ کا لشکر ہواؤں کی شکل میں آیا اور کافروں کا تیا پانچا کر دیا۔ (احمد: ۳/۳، ابن کثیر)