وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۖ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور جب ہم نے نبیوں سے ان کا عہد و پیمان لیا (٦) اور آپ سے لیا اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے لیا اور ہم نے ان سب سے بڑا پختہ عہد لیا
انبیا کا عہد کیا ہے: اس عہد سے کیا مراد ہے؟ بعض کے نزدیک یہ وہ عہد ہے۔ جو ایک دوسرے کی مدد اور تصدیق کا انبیا علیہم السلام سے لیا گیا تھا جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَا اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗ﴾ (آل عمران: ۸۱) ’’ جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں، پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے، تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔‘‘ بعض کے نزدیک یہ وہ عہد ہے جس کا ذکر اس ارشاد میں ہے: ﴿شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِيْ اَوْحَيْنَا اِلَيْكَ وَ مَا وَصَّيْنَا بِهٖ اِبْرٰهِيْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِيْسٰى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ﴾ (الشوریٰ: ۱۳) ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح ( علیہ السلام )کوحکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دیا ہے۔ اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم( علیہ السلام )، اورموسیٰ( علیہ السلام ) اور عیسیٰ( علیہ السلام ) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا، اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘ یہ عہد اگرچہ تمام انبیا علیہم السلام سے لیا گیا تھا لیکن یہاں بطور خاص پانچ انبیا علیہم السلام کا نام لیا گیا ہے جن سے ان کی اہمیت و عظمت واضح ہے۔ اور ان میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سب سے پہلے ہے۔ حالانکہ نبوت کے لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے متاخر ہیں۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شرف کا جس طرح اظہار ہو رہا ہے وہ محتاج وضاحت نہیں۔ (احسن البیان)