وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ
اور جب انہوں نے دین کی راہ میں تکلیف و اذیت پر صبر کیا تو ہم نے ان میں بہت سے رہنما پیدا کئے جو ہمارے حکم کے مطابق ولگوں کی رہنمائی کرتے تھے اور ہماری آیتوں پر یقین کرتے تھے
اس آیت میں صبر کی فضیلت واضح ہے۔ صبر کا مطلب ہے کہ اللہ کے اوامر بجا لانے میں اور منکرات کو ترک کرنے میں اور اللہ کے رسولوں کی تصدیق اور ان کی اتباع کرنے میں جو تکلیفیں آئیں انھیں خندہ پیشانی سے جھیلنا۔ اللہ نے فرمایا ان کے صبر کرنے اور آیات الٰہی پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہم نے ان کو دینی امامت اور پیشوائی کے منصب پر فائز کیا۔ لیکن جب انھوں نے اس کے برعکس تبدیل و تحریف کا ارتکاب شروع کر دیا۔ تو ان سے یہ مقام سلب کر لیا گیا۔ چنانچہ اس کے بعد ان کے دل سخت ہو گئے۔ پھر نہ ان کا عمل صالح رہا نہ ان کا اعتقاد صحیح رہا۔ (احسن البیان)