أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ
کیا تم لوگ دیکھتے (١٣) نہیں کہ اللہ نے تمہارے لئے ان تمام چیزوں کو مسخر کر رکھا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور اس نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر کسی علم، بغیر دلیل اور بغیر کسی روشنی دینے والی کتاب کے جھگڑتے ہیں
تسخیرکائنات،کامطلب ہے فائدہ اُٹھاناجس کو’’یہاں کام سے لگادیا‘‘ کے الفاظ سے تعبیرکیاگیاہے جیسے آسمانی مخلوق، چاند،سورج ستارے وغیرہ تمہارے کام میں مشغول ہیں،چمک چمک کرتمہیں روشنی پہنچارہے ہیں۔ بادل، بارش، اولے، خشکی سب تمہارے نفع کی چیزیں ہیں۔خودآسمان تمہارے لیے مضبوط اورمحفوظ چھت ہے۔زمین کی نہریں، چشمے، دریا، سمندر، درخت، کھیتی، پھل یہ سب نعمتیں بھی اسی نے دے رکھی ہیں۔پھران ظاہری بیشمارنعمتوں کے علاوہ باطنی بیشمارنعمتیں بھی اس نے تمہیں دے رکھی ہیں۔ظاہری نعمتوں سے مرادوہ نعمتیں ہیں جن کاادراک عقل اور حواس وغیرہ سے ممکن ہو۔اورباطنی نعمتیں وہ جن کاادراک واحساس انسان کو نہیں ہوتا۔ یہ دونوں قسم کی نعمتیں اتنی ہیں کہ انسان ان کوشماربھی نہیں کرسکتا۔اس کے باوجودلوگ اللہ کی بابت جھگڑتے ہیں،کوئی اس کے وجودکے بارے میں،کوئی اس کے ساتھ اوروں کو شریک گردانتے ہیں،اورکوئی اس کے احکام وشرائع کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ یعنی ان کے پاس نہ کوئی عقلی دلیل ہے۔نہ کسی ہادی کی ہدایت،اورنہ کسی صحیفہ آسمانی سے کوئی ثبوت گویا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلواربھی نہیں۔ (احسن البیان)