وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
اور جب لقمان نے اپنے بٹیے کو نصیحت (٧) کرتے ہوئے کہا، اے میرے بیٹے ! کسی کو اللہ کا شریک نہ بنا، بے شک شرک ظلم عظیم ہے
بیٹے کوپہلی نصیحت،اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا: سیدنا لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کوچندنصیحتیں فرمائیں وہ اتنی اہم تھیں کہ ان کواللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا۔ دنیا میں اولاد ہی ایک ایسا رشتہ ہے جس کے متعلق انسان انتہائی خلوص برتتاہے۔اورنفاق نہیں کرسکتا،اوراولادہی کے متعلق اس کی یہ آرزوہوسکتی ہے کہ وہ ہربھلائی کی بات میں اس سے آگے نکل جائے،چنانچہ پہلی نصیحت جوسیدنالقمان نے اپنے بیٹے کوکی وہ یہ تھی کہ اللہ کے ساتھ کبھی کسی کوشریک نہ بنانا۔کیونکہ دنیامیں سب سے بڑی ناانصافی اوراندھیرکی بات یہی شرک ہی ہے۔شرک مجسم ظلم اورسب سے بڑی نا انصافی ہے۔ سیدناابن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب یہ آیت اتری: ﴿اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ﴾ (الانعام: ۸۲) (جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اوراپنے ایمان کوشریک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے ایسوں ہی کے لیے امن ہے۔اوروہی راہ راست پرچل رہے ہیں)توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ آیت بہت شاق گزری۔وہ کہنے لگے ہم میں سے کون ایساہے جس نے ایمان کے ساتھ ظلم (یعنی کوئی گناہ)نہ کیاہو۔توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا۔ظلم سے مرادعام گناہ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرانا،یہ بڑابھاری ظلم ہے۔ (بخاری: ۷۷۶)