وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
اور لوگوں میں کوئی ایسا ہوتا ہے جو اللہ سے غافل (٣) کرنے والی بات خرید کر لاتا ہے تاکہ بغیر سمجھے بوجھے اللہ کے بندوں کو اس کی راہ سے بھٹکائے، اور اس راہ کا مذاق اڑائے، ایسے لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے
اہل سعادت کے ذکرکے بعد اب اہل شقاوت کابیان ہورہاہے۔جوکلام الٰہی کے سننے سے تواعراض کرتے ہیں۔البتہ سازوموسیقی،نغمہ و سرود اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے ہیں اوران میں دلچسپی لیتے ہیں۔خریدنے سے مرادیہی ہے کہ آلات طرب شوق سے اپنے گھروں میں لاتے اور پھران سے لذت اندوزہوتے ہیں (لَھْوَ الْحَدِیْث) سے مرادگانابجانااس کاسازوسامان اورآلات،سازوموسیقی اورہروہ چیزہے جوانسان کوخیر اور معروف سے غافل کردے۔اس میں قصے، کہانیاں، افسانے، ڈرامے، ناول اورجنسی اورسننی خیزلٹریچر،رسالے اوربے حیائی کے پرچارک اخبارات سب ہی آجاتے ہیں۔ اور جدیدترین ایجادات،ریڈیوٹی وی،وی سی آر،وڈیوفلمیں وغیرہ بھی اس حکم میں داخل ہیں۔ (احسن البیان) عہد رسالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو غیر موثر بنانے میں ایک شخص نضر بن حارث بھی تھا وہ خود حیرہ گیا۔ وہاں سے بادشاہوں کے حالات اور رستم و اسفند یار کے قصے سیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں کہیں بھی اپنا پیغام سناتے۔ ابو لہب کی طرح نضر بن حارث وہاں پہنچ کر یہ قصے سناتا پھر لوگوں سے پوچھتا کہ آخر کس بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام مجھ سے بہتر ہے۔ علاوہ ازیں اس نے چند لونڈیاں بھی خرید رکھی تھیں۔ جب کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مائل ہونے لگتا تو وہ کسی لونڈی کو اس پر مسلط کر دیتا کہ وہ لونڈی اُسے کھلائے پلائے اور اُس کی فکر کا رخ موڑ دے اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن ہشام: ۱/ ۲۷۱) (تیسیر القرآن) ان تمام چیزوں سے یقیناً انسان اللہ کے راستے سے گمراہ ہو جاتے ہیں اور دین کو استہزاد اور تمسخر کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ ان کی سر پرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے ارباب حکومت، ادارے، اخبارات کے مالکان، اہل قلم اور فیچر نگاری بھی اسی عذاب مہین کے مستحق ہوں گے۔ (القرآن الحکیم)