سورة آل عمران - آیت 55

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ ! میں تجھے پورا (47) لینے والا ہوں، اور تجھے اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں، اور کافروں (کی خباثت آلود فضا) سے تجھے پاک کرنے والا ہوں، اور تیری اتباع کرنے والوں کو قیامت تک کافروں کے اوپر کرنے والا ہوں، پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، تو تمہارے درمیان ان باتوں میں فیصلہ کروں گا جن میں تم آپس میں اختلاف کرتے رہے تھے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہودیوں کا مکر کیا تھا: حضرت عیسیٰ پر الزام لگایا، پیدائش عیسیٰ کو حضرت مریم کا گناہ قرار دیا۔ حضرت مریم کے لیے کہا کہ انھوں نے یوسف نجار سے تعلقات قائم کیے حالانکہ وہ پاک دامن تھیں۔ حضرت عیسیٰ کے بارے میں رومیوں کو بھڑکایا کہ وہ عوام الناس کو تمہارے خلاف کرتا ہے۔ اللہ کی تدبیر: حضرت عیسیٰ کو صحیح سلامت اٹھا لیا۔ کافروں کے مقابلے میں ان کے ماننے والے بڑھتے رہیں گے سولی نہیں چڑھنے دیا۔ گندے لوگوں کے ماحول سے بچا لیا۔ اذ قال: رب نے کہا میں تمہارے درمیان فیصلہ کر دوں گا۔ ان چیزوں کے بارے میں جن میں اختلاف تھا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تاریخی واقعہ سے پردہ اٹھا یا ہے، جس سے دنیا کی غلط فہمی کا اندازہ ہوگا۔ اور بہت سے سبق بھی ملیں گے۔ متوفیک سے مراد: سلا دینا، روح کو بدن کے ساتھ بلانا جسے انگلش میں (Recall)کہتے ہیں، یعنی اس کے منصب سے واپس بلا لینا، حضرت عیسیٰ نے نبوت کے منصب کو ایک مدت تک ادا کیا، آپ یہودی قوم كو تورات کی تعلیم دیتے تھے۔ یہودی سرکش اور نافرمان تھے۔ کتاب ہونے کے باوجود اس كی تعلیمات بدل دی تھیں، آج کا معاشرہ اور یہودی معاشرہ برابر ہے۔ آج کے مسلمان بھی قرآن کے طریقہ زندگی کو نہیں مانتے اپنی مرضی سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ کافروں سے پاک کرنے والا ہوں سے مراد: یہودیوں کے الزامات سے پاک کروں گا۔ الزامات: یہود كا الزام تھا كہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام کی غلطی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ آپ نے وہ دعوت حق دی جو تمام پیغمبروں نے دی تھی پر لوگوں نے انکار کیا جو عیسیٰ علیہ السلام کا نہیں رب کا انکار تھا۔ رومیوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دے كر سولی پر چڑھا دیں گے۔ اس وقت اللہ نے فیصلہ کیا کہ میں تمہیں پورے کا پورا اُٹھا لوں گا۔ یہودیوں نے حضرت زکریا علیہ السلام کو ایک رقاصہ کی فرمائش پر قتل کردیا، چند افراد نشانی کے طور پر بچ گئے اب ہدایت دینے والا کوئی نہ رہا۔ پھر جب آپ کو سولی پر چڑھانے کاوقت آیا تو اللہ کی قدرت کاملہ حرکت میں آئی، اللہ کے فرشتے حضرت عیسیٰ کو آسمانوں کی طرف اٹھالے گئے اور کسی دوسرے شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی شکل كا بنا دیا اور اسی کو یہودیوں نے سولی پر چڑھا دیا۔ قرآن کریم میں ہے۔ وَلٰـکِنْ شُبَّہَ لَھُمْ: (اور ان کے لیے شبہ بنادیا) سورۃ النساء 157 میں فرمایا: ان یہودیوں کا کہنا کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کردیا ہے نہ قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو شبہ میں ڈال دیا گیا ان کو علم نہیں یہ گما ن کررہے ہیں۔ 158 :اللہ غلبہ رکھتا ہے یہودی اس بات کو جھٹلا رہے ہیں۔ اللہ کی طرف لوٹنا ہے: کوئی چھٹکا را نہیں پاسکتا۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے، دنیا و آخرت میں جو عذاب اللہ نے طے کر رکھا ہے وہ ضرور ملے گا، اہل ایمان کو پورا پورا بدلہ ملے گا۔ حضرت مریم علیہ السلام سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام كی سولی کے بعد پانچ برس تک زندہ رہیں۔ حضرت عیسیٰ کی عمر 33برس تھی۔ لوگ مشکوک ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں۔ آج مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ درجہ دیتے ہیں۔ مثلا:(۱) اللہ سے اونچا رسول کا روضہ ۔ (۲) خدا جس کو پکڑے چھڑالے محمد۔ محمد کے پکڑے چھڑا کوئی نہیں سکتا وغیرہ وغیرہ۔