وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَٰهُنَا وَإِلَٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
اور تم لوگ اہل کتاب سے بحث و مادلہ (٢٦) صرفا سی طریقہ سے کرو جو سب سے عمدہ ہو، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا اور کہو کہ ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو ہم پر نازل کی گئی ہے اور تم پر نازل کی گئی ہے اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہے اور ہم نے اسی کے سامنے اپنے سر جھکا رکھے ہیں۔
غیر مسلموں کو دلائل سے قائل کرو: مشرکوں کادین تو سراسر باطل ہے۔ مگر اہل کتاب کادین اپنی اصل کے لحاظ سے سچاتھا۔ لہٰذاان سے تمہاری بحث کاانداز مشرکوں سے جدا گانہ ہوناچاہیے اور ان کے مذاہب میں جتنی سچائی ہے اس کا اعتراف کرنا چاہیے ۔ پھر جس مقام سے اختلاف واقع ہوتاہو اُسے مہذب طریقے سے سلجھے ہوئے پیرائے سے سمجھادیناچاہیے ۔ کیا عجب کہ وہ راہ راست اختیار کرے۔ جیسے کہ ارشاد ہے: ﴿اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ﴾ (النحل: ۱۲۵) ’’اپنے رب کی راہ کی دعوت حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ لوگوں کو دو۔‘‘ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجاتھا تو فرمایا، کہ اس سے نرمی سے گفتگو کرنا ۔ کیا عجب کہ وہ نصیحت قبول کرلے اور اس کا دل پگھل جائے۔ پس حکم الٰہی یہی ہے کہ جو بھلائی اور نرمی سے نہ مانے اس پر سختی کی جائے۔ جو لڑے اس سے لڑا جائے ہاں یہ اور بات ہے کہ ماتحتی میں رہ کر جزیہ ادا کرے ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جس کے کھرے کھوٹے ہونے کا تمہیں یقینی علم نہ ہو تو اس کی تکذیب نہ کرو اور نہ بے تامل تصدیق کردیا کرو ۔ ممکن ہے کہ کسی امر حق کو تم جھٹلا دو اور کسی باطل کی تم تصدیق کربیٹھو۔ پس مشروط تصدیق کرو، کہہ دو کہ ہمارا اللہ کی ہر بات پر ایمان ہے۔ اگر تمہاری پیش کردہ چیز اللہ کی نازل کردہ ہے تو ہم اسے تسلیم کرتے ہیں اور اگر تم نے اس میں تبدیل وتحریف کردی ہے تو ہم اسے نہیں مانتے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اہل کتاب توراۃ کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور ہمارے سامنے عربی میں اس کاترجمہ کرتے اس پر آنحضرتe نے فرمایا،نہ تم انھیں سچا کہو نہ جھوٹا بلکہ (اَمَنَّابِالَّذِیْ)سے آخر آیت تک پڑھ دیاکرو ۔ (بخاری: ۴۴۸۵)