فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
توان کی قوم کا جواب (١٣) اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے آپس میں بات کی کہ تم لوگ اسے قتل کردو یا اسے آگ میں جلا دو، توالہ نے انہیں آگ سے نجات دی بے شک اس میں ایمانداروں کے لیے نشانیاں ہیں
حضرت ابراہیم کے دلائل توحیدکاجب قوم ابراہیم علیہ السلام سے کوئی جواب نہ بن پڑاتواوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئے اور یہی باطل پرستوں کی عادت ہوتی ہے،لہٰذااپنی قوت سے حق کودبانے لگے اوراپنی طاقت سے سچ کوروکنے لگے۔کہنے لگے،ایک گڑھاکھودو،اس میں آگ بھڑکاؤاوراس آگ میں اسے ڈال دوکہ جل جائے،چنانچہ انہوں نے آگ کاایک بہت بڑا الاؤ تیار کرکے حضرت ابراہیم علیہ السلام کومنجنیق میں ڈال کراس آگ میں پھینک دیا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کوحکم دیا کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حق میں ٹھنڈی اور غیر مضر بن جائے۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام اس آگ میں اس طرح رہے جیسے کوئی شخص باغ اور گل و گلزار میں رہتا ہے۔ ایمان والوں کے لیے نشانیاں یہ اوراس جیسی اورقربانیاں تھیں جن کے باعث آپ کوامامت کامنصب عطاہوا،اپنانفس آپ نے رحمٰن کے لیے،اپناجسم آپ نے میزان کے لیے،اپنی اولادآپ نے قربانی کے لیے اپنامال آپ نے فیضان کے لیے وقف کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کل ادیان کے پیروکار آپ سے محبت رکھتے ہیں۔اللہ نے آگ کوآپ کے لیے باغ بنادیا،اس واقعہ میں ایمان داروں کے لیے قدرت الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں۔