وَمَا كُنتَ تَرْجُو أَن يُلْقَىٰ إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ ظَهِيرًا لِّلْكَافِرِينَ
اور آپ توقع (٤٧) نہیں کرتے تھے کہ آپ پر قرآن اتارا جائے گا یہ تو آپ کے رب کی رحمت تھی، اس لیے آپ کافروں کا مددگار نہ بنئے
نبی کونبوت ملنے تک یہ علم نہیں ہوتاکہ اُسے نبوت ملنے والی ہے: اس آیت سے واضح طورپرمعلوم ہوتاہے کہ کسی نبی کوبھی نبوت ملنے سے پہلے یہ معلوم نہیں ہوتاکہ اُسے نبوت عطاہوگی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کس طرح اندھیری اورٹھنڈی رات کوراہ بھولے ہوئے آگ کی تلاش میں نکلے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کوبلاکرنبوت سے سرفرازکردیا۔بالکل یہی صورت حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غارحرِامیں پیش آئی تھی۔پہلی وحی کے بعدآپ گھبرائے ہوئے گھرپہنچے اورکہا:’’مجھے کپڑا اوڑھا دو، کپڑا اوڑھا دو۔ پھر جب ذراگھبراہٹ دورہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاسے غارحرِ کاواقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا (اِنِّیْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ) یعنی مجھے تواپنی جان کاخطرہ پڑگیاتھا‘‘پھرحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کوساتھ لے کراپنے چچازادبھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں جوایک نصرانی عالم اورنیک سیرت انسان تھے۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتایاکہ یہ تووہی فرشتہ ہے جوموسیٰ علیہ السلام پرنازل ہوتا تھا (بخاری: ۲۳) یعنی نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت کے لیے چنا جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب الٰہی کا نزول ہوگا۔ اللہ کی خاص رحمت: یعنی یہ نبوت و رسالت سے سرفرازی اللہ کی خاص رحمت کانتیجہ ہے جو آپ پر ہوئی اس سے یہ معلوم ہواکہ نبوت کوئی ایسی چیز نہیں جسے محنت اور سعی وکاوش سے حاصل کیاجارہاہو بلکہ یہ سراسر اللہ کی خاص رحمت و فضل ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا کی اور کتاب بھی دی گئی۔ اب آپ کو ہر گز کافروں کا مدد گار نہ ہوناچاہیے، ان سے بیزاری ظاہر کردینی چاہیے اور ان کی مخالفت کااعلان کردیناچاہیے۔