سورة القصص - آیت 81

فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِن فِئَةٍ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنتَصِرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا (٤٣) اور اس کی کوئی ایسی جماعت نہ تھی، جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اس کی مدد کرتی، اور نہ وہ آپ اپنی مدد کرسکا

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قارون اکاانجام: کہتے ہیں کہ قارون جب موسیٰ علیہ السلام کامخالف بن کرفرعون سے جاملاتواس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوبدنام کرنے لیے ایک سازش تیارکی اورایک فاحشہ عورت کوکچھ دے دلاکراس بات پرآمادہ کیاکہ وہ آپ پرزناکی تہمت لگادے۔چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام نے اسے قسم دے کرسچ سچ بات بتانے کو کہا تو اس نے بتا دیا کہ اس نے قارون کے بہکانے سے یہ حرکت کی تھی اوراصل مجرم قارون تھاحضرت موسیٰ علیہ السلام کواس حرکت پر بہت غصہ آیا۔آپ نے اس کے لیے بددعاکی یہ اسی بدعا کا اثر تھا کہ قارون اپنے محل،خادموں اورخزانوں سمیت زمین میں دھنسادیاگیا۔زمین کااتناٹکڑاہی سارے کاساراعام سطح زمین سے بہت نیچے چلاگیااورجب اس پریہ قہرالٰہی نازل ہواتواس وقت نہ اس کے خزانے کچھ کام آئے نہ اس کے خدام اور نہ فرعون اوراس کے درباری ہی اس کی مددکوپہنچ سکے کہ وہ اس کوزمین میں دھنس جانے سے بچالیں، ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک شخص اپنا تہبند لٹکائے فخرسے جارہاتھاکہ اللہ نے زمین کوحکم دیاکہ اسے نگل جا۔ (بخاری: ۵۷۹۰) کتاب العجائب میں نوفل بن مساحق سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ نجران کی مسجدمیں میں نے ایک نوجوان کو دیکھا، بڑا لمبا چوڑا بھر پوراجوانی کے نشہ میں چور، گٹھے ہوئے بدن والا،بانکاترچھا،اچھے رنگ والا،خوبصورت شکیل غرض میں نگاہیں جما کر اس کے جمال وکمال کودیکھنے لگاتواس نے کہا، کیا دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہاآپ کے حسن وجمال کامشاہدہ کررہاہوں اورتعجب معلوم ہورہا ہے۔اس نے جواب دیاکہ توہی کیا،خوداللہ تعالیٰ کوبھی تعجب ہے نوفل کہتے ہیں کہ اس کلمہ کے کہتے ہی وہ گھٹنے لگااوراس کارنگ روپ اُڑنے لگا اور گھٹتے گھٹتے قدرے ایک بالشت کے رہ گیاآخرکاراس کاکوئی قریبی رشتے دارآیااوراسے آستین میں ڈال کرلے گیا۔ قارون کواس کے تکبر نے اس کے محل اورخزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا ایک حدیث میں ہے کہ ساتویں زمین تک یہ لوگ بقدرانسان نیچے کی طرف دھنستے جارہے ہیں قیامت تک اسی عذاب میں رہیں گے۔ (ابن کثیر: ۴/ ۱۴۸) نہ تو مال انہیں کام آیانہ جاہ وقسمت،نہ دولت نہ تمکنت،نہ کوئی ان کی مددکے لیے اٹھانہ یہ خود اپنا بچاؤکرسکے ۔تباہ ہوگئے بے نشان ہوگئے ۔مٹ گئے اورمٹادیے گئے۔