أَفَمَن وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ
جس آدمی سے ہم نے ایک اچھا وعدہ کررکھا ہے اور جو اسے مل کررہے گا، کیا وہ اس آدمی جیسا ہوگا جسے ہم نے دنیاوی زندگی کا سازوسامان دیا ہے پھر اسے قیامت کے دن جواب دہی کے لیے حاضر کیا جائے گا
اس آیت میں دو آدمیوں کاتقابل پیش کیاگیاہے ۔ ایک وہ جو آخرت کے بہتر انجام پر نظر رکھتاہو اور اس بہتر انجام کے لیے ہی ا پنی کوششیں صرف کررہاہو۔ دوسرا وہ جس کا مطمع نظر صرف دنیاوی مفادات اور ساز وسامان تک محدود ہو۔ اور آخرت میں اس سے سختی سے باز پُرس کی جانے والی ہو۔ یعنی اہل ایمان وعدہ الٰہی کے مطابق نعمتوں سے بہرہ ور اور نا فرمان عذاب سے دوچار ہوں گے، تو کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں اس کا خود ہی فیصلہ کرلو۔ تفسیر طبری میں مروی ہے کہ یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو جہل ملعون کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(طبری: ۱۹/ ۶۰۴)