سورة القصص - آیت 59

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ کا رب بستیوں کو اس وقت تک نہیں ہلاک (٣٠) کرتا، جب تک ان کے مرکزی شہروں میں ایک رسول نہیں بھیج دیتا جو ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور ہم انہی بستیوں کو ہلاک کرتے ہیں جن کے رہنے والے ظالم ہوتے ہیں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

تیسرا جواب: یعنی اتمام حجت کے بغیر اللہ تعالیٰ کسی کو ہلاک نہیں کرتا۔ اُمِّھَا (بڑی بستی ) کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوا، کہ ہر چھوٹے بڑے علاقے میں نبی نہیں اتابلکہ مرکزی مقامات پر نبی آتے رہے اور چھوٹے علاقے اس کی ذیل میں اجاتے رہے ہیں۔ یعنی نبی بھیجنے کے بعد وہ بستی والے ایمان نہ لاتے اور کفر وشرک پر اپنااصرا رجاری رکھتے تو پھر انھیں ہلاک کردیاجاتا۔ یہی مضمون سورۃ ہود ( ۱۱۷) میں بھی بیان کیاگیاہے۔ بس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو تمام جہان کے لیے عام کردیا اور مکے میں جو تمام دنیا کامرکز ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرماکر ساری دنیا پر اپنی حجت ختم کردی۔ بخاری و مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ میں تمام سیا ہ وسفید کی طرف نبی بنا کربھیجا گیاہوں۔ (بخاری: ۴۹۸، مسلم: ۷۱۲) اس لیے نبوت ورسالت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا۔ لہٰذا ے اہل مکہ ! تمہارا یہ خیال کہ اسلام لانے سے تم تباہ ہوجاؤ گے بالکل غلط ہے بلکہ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام کے بعد اگر تم نے سرکشی اختیار کرلی تو اس صورت میں تمہاری تباہی واقع ہوگی اور اس کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔