فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
تو اس کے رب نے اسے شرف قبولیت (31) بخشا، اور اس کی اچھی نشو ونما کی، اور زکریا کو اس کا کفیل بنایا، جب بھی زکریا اس کے پاس محراب میں جاتے، اس کے پاس کھانے کی چیزیں پاتے، وہ پوچھتے کہ اے مریم، یہ چیزیں کہاں سے تیرے لیے آئی ہیں، وہ کہتیں کہ یہ اللہ کے پاس سے ہے، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے
منت کو قبول کرلیا: سیّدہ مریم کی والدہ کی منت کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا، سیدہ مریم کی جسمانی اور روحانی تربیت خوب اچھی طرح فرمائی جب وہ سنِ شعور کو پہنچ گئیں اور عبادت خانہ میں جانے کے قابل ہوگئیں تو سوال یہ پیدا ہوا کہ ان کا کفیل کون ہوگا؟ ہیکل سلیمانی میں بہت سے کاہن تھے بالآخر سیدنا زکریا کو یہ سعادت نصیب ہوئی کیونکہ ان کی بیوی سیدہ مریم کی حقیقی خالہ تھیں۔ اللہ کی طرف سے سیدنا مریم کا رزق آنا: جس حجرہ میں سیدہ مریم رہائش پذیر تھیں وہاں ( غیر موسمی پھل اور موسمی پھل سبھی موجود ہوتے) حضرت مریم کے حجرہ میں سوائے حضرت زکریا کے اور کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی ۔ اور سامان خور و نوش حضرت زکریا ہی وہاں پہنچایا کرتے تھے۔ پھر بار ہا ایسا ہوا کہ سیدنا زکریا حجرہ میں داخل ہوتے تو سیدہ مریم کے پاس پہلے سے ہی سامانِ خورو نوش پڑا دیکھتے تو وہ حیران ہوتے اور سیدہ مریم سے پوچھا کہ یہ کھانا تمہیں کون دے جاتا ہے۔ تو انھوں نے بلا تکلف کہہ دیا کہ اللہ کے ہاں سے مجھے یہ رزق مل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میں کچھ نہیں جانتی۔ واضح رہے کہ انبیاء کے ہاں معجزات اور اولیاء اللہ کے ہاں کرامات کا صدور ہوتا رہتا ہے اور یہ دونوں برحق ہیں، تاہم ان کا صدور اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ اور اس کی مشیت سے ہوتا ہے کسی نبی یا ولی کا اختیار نہیں کہ وہ معجزہ اور کرامت جب چاہے صادر کردے۔ حضرت زکریا کی حیرانی؟ دو باتیں تھیں (۱)سامان خورو نوش جو سیدہ مریم کے پاس پڑا دیکھتے وہ عموماً بے موسمی پھلوں پر مشتمل ہوتا۔ (۲) جب میرے سوا اس کمرے میں کوئی داخل ہو ہی نہیں سکتا تو یہ سامان خور و نوش سیدہ مریم کو کون دے جاتا ہے۔ ایك روایت میں ہے كہ ایك دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی دن بغیر کھانے کے گزر گئے۔ آپ تمام ازواج کے گھر گئے، پھر حضرت فاطمہ کے گھر گئے تو انھوں نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان، کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ پھر ان کے ہاں کوئی روٹیاں اور سالن لے آیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو اور سب کو بچوں کو بھیج کر بلوایا۔ ‘‘ (مسند ابو یعلیٰ: ۲۲۴۰)