فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
جب موسیٰ نے مدت پوری کرلی اور اپنے بال بچوں کولے کرچلے (١٥) تو انہوں نے طور پہاڑ کی طرف ایک آگ دیکھی، انہوں نے اپنے بال بچوں سے کہا یہیں ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، ہوسکتا ہے کہ میں تمہارے لیے (راستہ کی) کوئی خبر لاؤں، یا آگ کا ایک انگارہ، تاکہ تم اسے تاپو۔
دس سال بعد اپنے وطن کو روانگی: نکاح کی شرائط طے ہونے کے بعد حضرت شعیب کی لڑکی اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان رشتہ ازدواج قائم ہوگیا۔ آپ نکاح کے بعد یہاں آٹھ سال کی بجائے دس سال ہی قیام پذیر رہے پھر اپنے اہل وعیال سمیت اپنے آبائی وطن مصر جانے کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے ایک تو آپ کو اپنے والدین اور بہن بھائی سے ملنے کا شوق تھا دوسرے آپ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ ممکن ہے کہ لوگ اب تک واقعہ قتل کو بھول چکے ہوں گے۔ اس لیے اپنے وطن جانا ہی مناسب سمجھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا راہ بھولنا: راستہ میں جب طور سینا کے دامن میں پہنچے تو اندھیری رات کی وجہ سے راستہ بھول گئے۔ سردی کاموسم اور شدید ٹھنڈی رات اور بال بچے ساتھ،سخت پریشان ہوگئے۔ آخر دور سے انھیں ایک آگ نظر آئی جسے آپ نے غنیمت سمجھا اور خیال کیاکہ وہاں کوئی آگ جلانے والا تو ضرور ہوگا۔ لہٰذا اپنے اہل وعیال سے کہا تم یہیں ٹھہرو۔ میں اس آگ کے قریب جاتاہوں اگر کسی نے راستہ بتادیا تو فبھا ورنہ کچھ آگ کے انگارے ہی لے آؤں گا تاکہ آپ لوگ تاپ سکیں ۔