إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
جب عمران کی بیوی (30) نے کہا، اے میرے رب ! میں نے تیرے لیے اپنے پیٹ کے بچے کی آزاد کر کے نذر مان لی ہے، تو میری طرف سے اسے قبول فرما لے، بے شک تو ہی خوب سننے والا بڑا جاننے والا ہے
سیدہ مریم کی والدہ نے منت مانی تھی کہ اگر میرے ہاں لڑکا پیدا ہوگا تو امیں اُسے آپ کی عبادت کے لیے وقف کردونگی کیونکہ اس عہد میں لڑکیوں کو وقف کرنے کا رواج نہ تھا۔ محررًا: کا مطلب ہے ایسا بچہ جسے والدین نے تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا ہو تا کہ وہ یکسو ہوکر اللہ کی عبادت کرسکے ۔ یہود میں یہ دستور تھا کہ وہ اس طرح کے منت مانے ہوئے وقف شدہ بچوں کو بیت المقدس یا ہیکل سلیمانی میں منتظمین کے سپرد کرآتے تھے جنھیں وہ اپنی زبان میں کاہن کہتے تھے۔