بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے رحم کرنے والا ہے۔
تعارف و موضوع اس سورہ کاموضوع ان شبہات واعتراضات کو رفع کرناتھاجو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر وار د کیے جارہے تھے اور ان عذرات کو قطع کرناہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے کے لیے پیش کیے جاتے تھے ۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرناچاہتاہے اس کے لیے وہ غیر محسوس طریقے سے اسباب و ذرائع فراہم کردیتاہے۔ جس بچے کے ہاتھوں آخرکار فرعون کا تختہ الٹنا تھا اُس کے گھر میں اللہ نے اس کے اپنے ہاتھوں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پرورش کرادیا۔ دوسرا یہ کہ نبوت کسی شخص کو کسی بڑے مشن اور زمین وآسمان سے کسی بھاری اعلان کے ساتھ نہیں دی جاتی ۔ موسیٰ علیہ السلام آگ لینے چلے تھے کہ پیغمبر ی مل گئی۔تیسرا یہ کہ جس بندے سے خدا کوئی کام لیناچاہتاہے وہ بغیر کسی لاؤ لشکر اور سرو سامان کے اٹھتاہے ۔ بظاہر کوئی اس کا مدد گار نہیں ہوتا مگر وہ بڑے بڑے لشکر و سروساما ن والے آخرکار اس کے مقابلے میں دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جیسے موسیٰ اور فرعون کا قصہ ۔چوتھا یہ کہ تم بار بار موسیٰ علیہ السلام کا حوالہ دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ کچھ کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ علیہ السلام کو دیاگیاتھا۔ جن لوگوں نے وہ معجزے دیکھ کر حق کاانکار کیا تھا ان کا انجام کیاہوا۔ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کفار مکہ ان کے درمیان ایسی ہی ایک کشمکش برپا تھی جو اس سے پہلے فرعون اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان برپا ہوچکی تھی ۔ ان حالات میں یہ قصہ سنانے کے معنی یہ تھے کہ اس کاہر ہر جز و وقت کے حالات پر خود بخود چسپاں ہوتا چلاجائے۔ (تفہیم القرآن )