سورة النمل - آیت 65

قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں جتنی مخلوقات ہیں ان میں سے کوئی بھی اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتا ہے اور نہ انہیں معلوم ہے کہ وہ دوبارہ کب اٹھائے جائیں گے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کے سواکوئی غیب دان نہیں: یعنی ان تصریحات سے معلوم ہواکہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے ۔ اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں، نبیوں اور رسولوں کو بھی اتناہی علم ہوتاہے جتنا اللہ تعالیٰ و حی و الہام کے ذریعے سے انھیں بتلادیتاہے اور جو علم کسی کے بتلانے سے حاصل ہو اس کے عالم کو عالم الغیب نہیں کہاجاتا ۔ عالم الغیب تو وہ ہے جو بغیر کسی واسطے اور ذریعے کے ذاتی طور پر ہر چیز کا علم رکھے، ہر حقیقت سے باخبر ہو، اور مخفی چیز بھی اس کے دائرہ عمل سے باہر نہ ہو ۔ یہ صفت صرف اور صرف اللہ کی ہے ۔ اس لیے صرف وہی عالم الغیب ہے اس کے سوا کائنات میں کوئی عالم الغیب نہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جو شخص یہ گمان رکھتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ کل کو پیش آنے والے حالات کاعلم رکھتے ہیں، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ اس لیے کہ وہ فرمارہاہے کہ ’’آسمان وزمین میں غیب کا علم صرف اللہ کو ہے ‘‘ (مسلم: ۱۷۷، بخاری: ۴۸۵۵) حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستارے تین مقاصد کے لیے بنائے ہیں آسمان کی زینت، راہنمائی کاذریعہ اور شیطان کو سنگسار کرنا، لیکن اللہ کے احکام سے بے خبر لوگوں نے ان سے غیب کاعلم حاصل کرنے (کہانت ) کاڈھونگ رچالیاہے۔ مثلاً کہتے ہیں کہ فلاں فلاں ستارے کے وقت نکاح کرے گا تو یہ یہ ہوگا، فلاں فلاں ستارے کے وقت سفر کرے گا تو ایسا ایسا ہوگا۔ فلاں فلاں ستارے کے وقت پیداہوگا تو ایسا ایسا ہوگا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں ان کے قیاسات کے خلاف اکثر ہوتارہتاہے۔ ستاروں،پرندوں اور جانوروں سے غیب کاعلم کس طرح حاصل ہوسکتاہے ؟ جب کہ اللہ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ آسما ن وزمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا( ابن کثیر )