سورة النمل - آیت 60

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یا وہ ذات بہتر ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا (٢٢) ہے، اور تمہارے لیے آسمان سے بارش نازل کی ہے، پس ہم نے اس کے ذریعہ بارونق اور خوشنما باغات اگائے جن کے درختوں کو تم نہیں اگا سکتے تھے کیا اللہ کے ساتھ کسی اور معبود نے بھی یہ کام کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ راہ حق سے دور ہوگئے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کاہمسرکوئی نہیں۔یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ،رحمت وربوبیت عامہ اورتوحیدپردلائل دیے ہیں کہ کل کائنات کا چلانے والا،سب کاپیداکرنے والا،سب کوروزیاں دینے والاسب کی حفاظتیں کرنے والا،تمام جہان کی تدبیر کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ان بلندآسمانوں کو،ان چمکتے ستاروں کو اسی نے پیدا کیا ہے۔ اس بھاری بوجھل زمین کو‘ان بلندچوٹیوں والے پہاڑوں کو،ان پھیلے ہوئے میدانوں کواسی نے پیدا کیا، کھیتیاں، باغات، پھل، پھول، دریا، سمندر، حیوانات، جنات، انسان خشکی اورتری کے عام جانداراسی ایک کے بنائے ہوئے ہیں۔اسی نے آسمان سے بارش برساکراس کے ذریعے سے بارونق باغات اُگائے۔کیاتم میں سے کوئی ایساہے جوزمین سے درخت ہی اُگاکردکھادے ان سب کے جواب میں مشرکین بھی کہتے اوراعتراف کرتے تھے کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔یعنی ان سب حقیقتوں کے باوجودکیااللہ کے ساتھ کوئی اوربھی ہستی ایسی ہے جوعبادت کے لائق ہو؟یاجس نے ان میں سے کسی چیزکوپیداکیاہو؟یعنی کوئی ایسانہیں جوعبادت کے لائق ہو۔ ان آیات میں اَمَّنْ کا مفہوم یہ ہے کہ کیا وہ ذات ان تمام چیزوں کو بنانے والی ہے، اس شخص کی طرح ہے جو ان میں سے کسی چیز پر قادر نہیں۔ (ابن کثیر) آیت کے خاتمہ پرفرمایابلکہ یہ وہ لوگ ہیں جواللہ کے شریک ٹھہرارہے ہیں، جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَّ قَآىِٕمًا يَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَ يَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ ﴾ (الزمر: ۹) ’’ایک وہ شخص جو راتوں کے اوقات سجدے اورقیام کی حالت میں (عبادت میں) گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رُب کی رحمت کی اُمیدرکھتاہو(اورجواس کے برعکس ہوبرابرہوسکتے ہیں، بتاؤ علم والے اوربے علم کیابرابرہیں،یقینانصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جوعقل مند ہوں۔‘‘ اور خود اپنے بارے میں ارشاد فرمایا: ﴿اَفَمَنْ هُوَ قَآىِٕمٌ عَلٰى كُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ قُلْ سَمُّوْهُمْ اَمْ تُنَبِّـُٔوْنَهٗ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْاَرْضِ اَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مَكْرُهُمْ وَ صُدُّوْا عَنِ السَّبِيْلِ وَ مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ﴾ (الرعد: ۳۳) ’’تو کیا وہ جو ہر جان پر اس کا نگران ہے جو اس نے کمایا (کوئی دوسرا اس کے برابر ہوسکتا ہے؟) اور انھوں نے اللہ کے کچھ شریک بنا لیے۔ کہہ دے ان کے نام لو، یا کیا تم اسے اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ زمین میں نہیں جانتا، یا ظاہری بات سے (کہہ رہے ہو؟) بلکہ ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا، ان کا مکر خوشنما بنا دیا گیا اور وہ سیدھے راستے سے روک دیے گئے اور جسے اللہ گمراہ کر دے پھر اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور اسی آیت میں یہ بھی فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے شریک ٹھہرارہے ہیں۔ان سے کہہ کہ ذراان کے نام تومجھے بتاؤ۔پس ان سب آتیوں کامطلب بھی یہی ہے کہ اللہ نے اپنی صفتیں بیان فرمائی ہیں پھرخبردی ہے کہ یہ صفات کسی میں نہیں۔