وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِم بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ
اور میں ان کے پاس ہدیہ بھیج کر دیکھتی ہوں کہ میرے قاصد کیا جواب لاتے ہیں۔
سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں وفد کی روانگی: ملکہ کی اس تقریر سے یہ توصاف ظاہر تھاکہ وہ مقابلہ کے لیے تیار نہیں ۔ مگر وہ فوری طور پر مطیع فرمان ہونے پر بھی آمادہ نہ تھی۔ لہٰذا اس نے ایک دانشمندانہ اقدام اٹھاتے ہوئے درمیانی راستہ اختیار کیا کہ اس وقت تو میں انھیں ایک گراں بہاتحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ اس کے بعد وہ میرے قاصدوں سے کیا فرماتے ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ وہ اسے قبول فرمالیں اور ہم آئندہ بھی انھیں یہ رقم بطور جزیہ کے بھیجتے رہیں اور انھیں ہم پر چڑھائی کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ وہ جانتی تھی کہ پیسہ روپیہ وہ چیز ہے کہ فولاد کو بھی نرم کردیتاہے نیز اسے یہ بھی آزمانا تھا کہ وہ ہمارے مال کو قبول کرتے بھی ہیں کہ نہیں، اگر قبول کرلیا تو سمجھ لو کہ وہ ایک بادشاہ ہیں اور پھر ان سے مقابلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر واپس کردیاتو ان کی نبوت میں شک نہیں پھر مقابلہ سراسر بے سود بلکہ مُضر ہے۔ (تفسیر طبری )