ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۖ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ چند دن (21) کے علاوہ ہمیں آگ ہرگز نہیں چھوئے گی، اور انہیں ان کے دین کے معاملے میں ان کی افترا پردازیوں نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے
یہود کے علماء نے یہ عقیدہ گھڑا اور پوری قوم میں پھیلا دیا تھا کہ(۱) ’’یہو دی جہنم میں نہیں جائیں گے دوزخ کی آگ ان پر حرام کردی گئی ہے۔ اور اگر وہ دوزخ میں گئے بھی تو صرف اتنے دن جتنے دن انھوں نے بچھڑے کی پرستش کی ہے۔ (۲) دوسرے یہ كہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں کیونکہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں۔ جس طرح نصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سولی پر چڑھ کرامت کے گناہوں کا کفارہ چکا دیا ہے۔ مسلمان بھی اس سلسلے میں پیچھے نہیں رہے ان میں کچھ سیّد ہیں یا سیّد بنے ہوئے ہیں جنھوں نے اپنے متعلق یہ مشہور کر رکھا ہے کہ ان کی پشت پاک ہے لہٰذا انھیں آگ کا عذاب نہیں ہوگا۔ کچھ لوگوں نے دنیا میں بہشتی دروازے بنا رکھے ہیں جو کوئی ان کے نیچے سے گزر گیا وہ ضرور بہشت میں جائے گا، کچھ لوگ اپنے مشائخ اور پیروں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہوچکے ہوں۔ وہ ان کی شفاعت کرکے انھیں اللہ کی گرفت سے بچا لیں گے۔ مسلمانوں کی غلط فہمی کہ دین پر عمل نہیں کیا جاسکتا، (۲)دین پر عمل کیا تو دنیا چھوٹ جائے گی۔ (۳) نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ دے دی کافی ہے۔ (۴) گھر بیٹھے شوہر اور بچوں کی خدمت کرلی کافی ہے۔ (۵) اللہ غفور الرحیم ہے اللہ بھلا مجرموں کے لیے کیسے غفور الرحیم ہے۔